Tafseer-e-Usmani - Al-Qasas : 55
وَ اِذَا سَمِعُوا اللَّغْوَ اَعْرَضُوْا عَنْهُ وَ قَالُوْا لَنَاۤ اَعْمَالُنَا وَ لَكُمْ اَعْمَالُكُمْ١٘ سَلٰمٌ عَلَیْكُمْ١٘ لَا نَبْتَغِی الْجٰهِلِیْنَ
وَاِذَا : ور جب سَمِعُوا : وہ سنتے ہیں اللَّغْوَ : بیہودہ بات اَعْرَضُوْا : وہ کنارہ کرتے ہیں عَنْهُ : اس سے وَقَالُوْا : اور کہتے ہیں لَنَآ اَعْمَالُنَا : ہمارے لیے ہمارے عمل وَلَكُمْ : اور تمہارے لیے اَعْمَالُكُمْ : تمہارے عمل (جمع) سَلٰمٌ : سلام عَلَيْكُمْ : تم پر لَا نَبْتَغِي : ہم نہیں چاہتے الْجٰهِلِيْنَ : جاہل (جمع)
اور جب سنیں نکمی باتیں اس سے کنارہ کریں اور کہیں ہم کو ہمارے کام اور تم کو تمہارے کام سلامت رہو ہم کو نہیں چاہیں بےسمجھ لوگ8
8 یعنی کوئی جاہل لغو بیہودہ بات کہے تو اس سے الجھتے نہیں۔ کہہ دیتے ہیں کہ بس صاحب ! تمہاری باتوں کو ہمارا دور سے سلام۔ یہ جہالت کی پوٹ تمہی رکھو ہم کو ہمارے مشغلہ میں رہنے دو ۔ تمہارا کیا تمہارے، اور ہمارا کیا ہمارے سامنے آجائے گا۔ ہم کو تم جیسے بےسمجھ لوگوں سے الجھنے کی ضرورت نہیں۔ محمد بن اسحاق نے سیرت میں لکھا ہے کہ قیام مکہ کے زمانہ میں تقریباً بیس اشخاص حبشہ سے حضور ﷺ کی خبر سن کر آئے کہ تحقیق کریں کیسے شخص ہیں۔ آپ سے بات چیت کی، اور بڑے زور سے آپ ﷺ کی تصدیق کی، جب مشرف باایمان ہو کر واپس ہونے لگے تو ابو جہل وغیرہ مشرکین نے ان پر آوازے کسے کہ ایسے احمقوں کا قافلہ آج تک کہیں نہ دیکھا ہوگا۔ جو ایک شخص کی تحقیق حال کرنے آئے تھے اور اس کے غلام بن کر اور اپنا دین چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا " سَلاَمٌ عَلَیْکُمْ لاَ نُجَاہِلُکُمْ لَنَا مَانَحْنُ عَلَیْہِ وَلَکُمْ مَآ اَنْتُمْ عَلَیْہِ لَمْ نَاْلُ اَنْفُسَنَا خَیْرًا۔ " (بس ہم تم کو سلام کریں، معاف رکھو ہم تمہاری جہالت کا جواب جہالت سے دینا نہیں چاہتے، ہم اور تم میں سے جو جس حال پر ہے اس کا وہ ہی حصہ ہے ہم نے اپنے نفس کا بھلا چاہنے میں کچھ کوتاہی نہیں کی) اسی کے متعلق یہ آیات نازل ہوئیں۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ حضرت شاہ صاحب ' لکھتے ہیں کہ جس جاہل سے توقع نہ ہو کہ سمجھائے پر لگے گا اس سے کنارہ ہی بہتر ہے (موضح)
Top