Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Fi-Zilal-al-Quran - Hud : 100
ذٰلِكَ مِنْ اَنْۢبَآءِ الْقُرٰى نَقُصُّهٗ عَلَیْكَ مِنْهَا قَآئِمٌ وَّ حَصِیْدٌ
ذٰلِكَ
: یہ
مِنْ
: سے
اَنْۢبَآءِ الْقُرٰي
: بستیوں کی خبریں
نَقُصُّهٗ
: ہم یہ بیان کرتے ہیں
عَلَيْكَ
: تجھ پر (کو)
مِنْهَا
: ان سے
قَآئِمٌ
: قائم (موجود)
وَّحَصِيْدٌ
: کٹ چکیں
یہ چند بستیوں کی سرگزشت ہے جو ہم تمہیں سنا رہے ہیں ، ان میں سے بعض اب بھی کھڑی ہیں اور بعض کی فصل کٹ چکی ہے
درس نمبر 105 ایک نظر میں یہ سبق اس سورت کا اختتامیہ ہے ۔ اس میں کافی تبصرے اور متنوع نتائج اخذ کیے گئے ہیں۔ سورت کے تمام مضامین کو پیش نظر رکھ کر ایک مکمل اختتامیہ ہے۔ سورت کے آغاز اور قصص سب کا خلاصہ یہاں آگیا ہے۔ یہ تبصرے اور نتائج سورت کے مباحث کے ساتھ مکمل ہم آہنگی رکھتے ہیں اور سورت کے اغراض و مقاصد کے ساتھ مکمل مناسبت بھی رکھتے ہیں۔ مثلاً پہلا نتیجہ واضح طور پر قصص القرآن کے ساتھ متعلق ہے۔ ذَلِكَ مِنْ أَنْبَاءِ الْقُرَى نَقُصُّهُ عَلَيْكَ مِنْهَا قَائِمٌ وَحَصِيدٌ (100) وَمَا ظَلَمْنَاهُمْ وَلَكِنْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ فَمَا أَغْنَتْ عَنْهُمْ آلِهَتُهُمُ الَّتِي يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ شَيْءٍ لَمَّا جَاءَ أَمْرُ رَبِّكَ وَمَا زَادُوهُمْ غَيْرَ تَتْبِيبٍ (101) وَكَذَلِكَ أَخْذُ رَبِّكَ إِذَا أَخَذَ الْقُرَى وَهِيَ ظَالِمَةٌ إِنَّ أَخْذَهُ أَلِيمٌ شَدِيدٌ (102) (11 : 1000 تا 102) “ یہ چند بستیوں کی سرگزشت ہے جو ہم تمہیں سنا رہے ہیں ، ان میں سے بعض اب بھی کھڑی ہیں اور بعض کی فصل کٹ چکی ہے۔ ہم نے ان پر ظلم نہیں کیا ، انہوں نے آپ اپنے اوپر ظلم کیا ، اور جب اللہ کا حکم آگیا تو ان کے وہ معبود جنہیں وہ اللہ کو چھوڑ کر پکارا کرتے تھے ، ان کے کچھ کام نہ آسکے اور انہوں نے ہلاکت و بربادی کے سوا انہیں کچھ فائدہ نہ دیا اور تیرا رب جب کسی ظالم بستی کو پکڑتا ہے تو پھر اس کی پکڑ ایسی ہوتے ہے۔ فی الواقعہ اس کی پکڑ سخت اور دردناک ہوتی ہے ”۔ دوسرا تبصرہ ہے ان اقوام کی ہلاکت پر جو اس دنیا میں ہلاکت سے دوچار ہوئیں۔ اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ اس دنیاوی پکڑ کے بعد آخرت کی پکڑ شدید ہوگی۔ آخرت کے عذات کا یہ نقشہ اس طرح کھینچا جاتا ہے کہ منظر آنکھوں کے سامنے اسکرین پر چلتا پھرتا نظر آتا ہے جس طرح قرآن کریم مشاہد قیامت کے مناظر کو پیش کرتا ہے۔ إِنَّ فِي ذَلِكَ لآيَةً لِمَنْ خَافَ عَذَابَ الآخِرَةِ ذَلِكَ يَوْمٌ مَجْمُوعٌ لَهُ النَّاسُ وَذَلِكَ يَوْمٌ مَشْهُودٌ (103) وَمَا نُؤَخِّرُهُ إِلا لأجَلٍ مَعْدُودٍ (104) يَوْمَ يَأْتِ لا تَكَلَّمُ نَفْسٌ إِلا بِإِذْنِهِ فَمِنْهُمْ شَقِيٌّ وَسَعِيدٌ (105) فَأَمَّا الَّذِينَ شَقُوا فَفِي النَّارِ لَهُمْ فِيهَا زَفِيرٌ وَشَهِيقٌ (106) خَالِدِينَ فِيهَا مَا دَامَتِ السَّمَاوَاتُ وَالأرْضُ إِلا مَا شَاءَ رَبُّكَ إِنَّ رَبَّكَ فَعَّالٌ لِمَا يُرِيدُ (107) وَأَمَّا الَّذِينَ سُعِدُوا فَفِي الْجَنَّةِ خَالِدِينَ فِيهَا مَا دَامَتِ السَّمَاوَاتُ وَالأرْضُ إِلا مَا شَاءَ رَبُّكَ عَطَاءً غَيْرَ مَجْذُوذٍ (108) (11 : 103 تا 108) “ حقیقت یہ ہے کہ اس میں ایک نشانی ہے ، ہر اس شخص کے لیے جو عذاب آخرت کا خوف کرے۔ وہ ایک دن ہوگا جس میں سب لوگ جع ہوں گے اور پھر جو کچھ بھی اس ورز ہوگا سب کی آنکھوں کے سامنے ہوگا۔ ہم اس کے لانے میں کچھ زیادہ تاخیر نہیں کر رہے ہیں۔ بس ایک گنی چنی مدت اسکے لیے مقرر ہے۔ جب وہ آئے گا تو کسی کو بات کرنے کی مجال نہ ہوگی الا یہ کہ خدا کی اجازت سے کچھ عرض کرے۔ پھر کچھ لوگ اس دن بدبخت ہوں گے اور کچھ نیک بخت جو بدبخت ہ . ں گے وہ دوزخ میں جائیں گے ، جہاں وہ ہانپیں گے اور پھنکارے ماریں گے اور اسی حالت میں وہ ہمیشہ رہیں گے ، جب تک کہ زمین و آسمان قائم ہیں الا یہ کہ تیرا رب کچھ اور چاہے۔ بیشک تیرا ربت پورا اختیار رکھتا ہے کہ جو چاہے ، کرے۔ رہے وہ لوگ جو نیک بخت نکلیں گے تو وہ جنت میں جائیں گے اور وہاں ہمیشہ ریھ گے جب تک زمین و آسمان قائم ہیں الا یہ کہ تیرا رب کجھ اور چٔہے۔ ایسی بخشش ان کو ملے گی کا سلسلہ کبھی منقطع نہ ہوگا ”۔ اس کے بعد ان ہلاک شدہ بستیوں کے انجام سے یہ نتینجہ اخذ کیا گیا ہے کہ جو انجام ان بستیوں کا ہوا ، وہی انجام اہل مکہ کا بھی ہوگا۔ اگر دنیا میں ان کو ہلاک نہ کیا گیا اور ان کو مہلت دے دی گئی جس طرح قوم موسیٰ (علیہ السلام) کی طرح ضرور عذاب سے دوجار ہوں گے ، لہذا اے رسول آپ اور آپ کے ساتھ چلنے والے ساتھی اپنی راہ پر سیدھے آگے بڑھیں اور ان مشرکین اور ظالموں کی طرف ذرا بھی جھکاؤ اختیار نہ کریں ، نماز قائم کریں ، مشکلات پر صبر کریں کیونکہ اللہ محسنین کے اجر کو ذرہ برابر ضائع نہیں کرتا۔ فَلاتَكُ فِي مِرْيَةٍ مِمَّا يَعْبُدُ هَؤُلاءِ مَا يَعْبُدُونَ إِلاكَمَا يَعْبُدُ آبَاؤُهُمْ مِنْ قَبْلُ وَإِنَّا لَمُوَفُّوهُمْ نَصِيبَهُمْ غَيْرَ مَنْقُوصٍ (109) وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ فَاخْتُلِفَ فِيهِ وَلَوْلا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِنْ رَبِّكَ لَقُضِيَ بَيْنَهُمْ وَإِنَّهُمْ لَفِي شَكٍّ مِنْهُ مُرِيبٍ (110) وَإِنَّ كُلا لَمَّا لَيُوَفِّيَنَّهُمْ رَبُّكَ أَعْمَالَهُمْ إِنَّهُ بِمَا يَعْمَلُونَ خَبِيرٌ (111) فَاسْتَقِمْ كَمَا أُمِرْتَ وَمَنْ تَابَ مَعَكَ وَلا تَطْغَوْا إِنَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ (112) وَلا تَرْكَنُوا إِلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ وَمَا لَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ أَوْلِيَاءَ ثُمَّ لا تُنْصَرُونَ (113) وَأَقِمِ الصَّلاةَ طَرَفَيِ النَّهَارِ وَزُلَفًا مِنَ اللَّيْلِ إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ ذَلِكَ ذِكْرَى لِلذَّاكِرِينَ (114) وَاصْبِرْ فَإِنَّ اللَّهَ لا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ (115) (11 : 109 تا 115) “ پس اے نبی ، تو ان معبودوں کی طرف سے کسی شک میں نہ رہ ، جن کی یہ ولوگ عبادت کر رہے ہیں۔ یہ تو (بس لکیر کے فقیر بنے ہوئے) اسی طرح پوجا پاٹ کیے جا رہے ہیں جس طرح پہلے ان کے باپ دادا کرتے تھے ، اور ہم ان کا حصہ انہیں بھر پور دیں گے بغیر اس کے کہ اس میں کچھ کاٹ کسر ہو۔ ہم اس سے پہلے موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب دے چکے ہیں اور اس کے بارے میں بھی اختلاف کیا گیا تھا (جس طرح آج اس کتاب کے بارے میں کیا جارہا ہے جو تمہیں دی گئی ہے) اگر تیرے رب کی طرف سے ایک بات پہلے ہی طے نہ کردی گئی ہوتی تو ان اختلاف کرنے والوں کے درمیان کبھی کا فیصلہ چکا دیا ہوتا۔ یہ واقعہ ہے کہ یہ لوگ اس کی طرف سے شک اور خلجان میں پڑے ہوئے ہیں اور یہ بھی واقعہ ہے کہ تیرا رب انہیں ان کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دے کر رہے گا ، یقیناً وہ ان کی سب حرکتوں سے باخبر ہے۔ پس اے نبی ﷺ ، تم اور تمہارے وہ ساتھی جو (کفر و بغاوت سے ایمان و اطاعت کی طرف) پلٹ آئے ہیں ، ٹھیک ٹھیک راہ راست پر ثابت قدم رہو جیسا کہ تمہیں حکم دیا گیا ہے اور بندگی کی حد سے تجاوز نہ کرو ، جو کچھ تم کر رہے ہو ، اس پر تمہارا رب نگاہ رکھتا ہے۔ ان ظالموں کی طرف ذرا نہ جھکنا ، ورنہ جہنم کی لپیٹ میں آجاؤ گے۔ اور تمہیں کوئی ایسا ولی و سرپرست نہ ملے گا جو خدا سے تمہیں بچا سکے۔ اور کہیں سے تم کو مدد نہ پہنچے گی۔ اور دیکھو ، نماز قائم کرو دن کے دونوں سروں پر اور کچھ رات گزرنے پر۔ درحقیقت نیکیاں برائیوں کو دور کردیتی ہیں۔ یہ ایک یاد دہانی ہے ان لوگوں کے لیے جو خدا کو یاد رکھنے والے ہیں۔ اور صبر کرو اللہ نیکی کرنے والوں کا اجر کبہی ضائع نہیں کرتا ”۔ اس کے بعد روئے سخن ان ازمنہ قدیمہ کی اقوام کی طرف مڑجاتا ہے جن میں ایسے لوگ نہ تھے جو لوگوں کو فساد فی الارض سے روکتے ۔ ان اقوام کی اکثریت اسی راہ پر چلتی رہی جس پر وہ چل پرے تھے۔ اس لیے وہ اقوام ہلاکت کی مستحق قرار پائیں۔ اللہ کی یہ سنت نہیں ہے کہ وہ کسی بستی کو ہلاک کر دے اور اس کے باسی مصلح ہوں۔ فَلَوْلا كَانَ مِنَ الْقُرُونِ مِنْ قَبْلِكُمْ أُولُو بَقِيَّةٍ يَنْهَوْنَ عَنِ الْفَسَادِ فِي الأرْضِ إِلا قَلِيلا مِمَّنْ أَنْجَيْنَا مِنْهُمْ وَاتَّبَعَ الَّذِينَ ظَلَمُوا مَا أُتْرِفُوا فِيهِ وَكَانُوا مُجْرِمِينَ (116) وَمَا كَانَ رَبُّكَ لِيُهْلِكَ الْقُرَى بِظُلْمٍ وَأَهْلُهَا مُصْلِحُونَ (117) (11 : 116 ۔ 117) “ پھر کیوں نہ ان قوموں میں جو تم سے پہلے گزر چکی ہیں ، ایسے اہل خیر موجود رہے جو لوگوں کو زمین میں فساد برپا کرنے سے روکتے ؟ ایسے لوگ نکلے بھی تو بہت کم جن کو ہم نے ان قوموں میں سے بچالیا ورنہ ظالم لوگ تو انہی مزوں کے پیچھے پڑے رہے جن کا سامان انہیں فراوانی کے ساتھ دیا گیا اور وہ مجرم بن کر ہے۔ تیرا رب ایسا نہیں ہے کہ بستیوں کو ناحق تباہ کر دے حالانکہ ان کے باشندے اصلاح کرنے والے ہوں ”۔ اس حصے میں اللہ نے ان سنتوں کا بھی ذکر فرمایا ہے جو اللہ نے اپنی مخلوقات کے اندر جاری کی ہوئی ہے اور وہ سنت یہ ہے کہ لوگوں کے رجحانات اور میلانات مختلف ہوں گے اور ان کے خیایات میں اخلاف ہو کا۔ اگر الہل چاہتا تو تمام لوگوں کو ایک ہی ملت کردیتا۔ لیکن اللہ نے لوگوں کو فکری اور اختیاری آزادی عطا کردی اور اس وجہ سے ان کے درمیان اختلافات واقع ہوگے۔ وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ لَجَعَلَ النَّاسَ أُمَّةً وَاحِدَةً وَلا يَزَالُونَ مُخْتَلِفِينَ (118)إِلا مَنْ رَحِمَ رَبُّكَ وَلِذَلِكَ خَلَقَهُمْ وَتَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ لأمْلأنَّ جَهَنَّمَ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ (119) (11 : 118 – 119) “ بیشک تیرا رب اگر چاہتا تو تمام انسانوں کو ایک گروہ بنا سکتا تھا۔ مگر اب تو وہ مختلف طریقوں ہی پر چلتے رہیں گے اور بےراہ رویوں سے صرف وہی لوگ بچیں گے جن پر تیرے رب کی رحمت ہے۔ اسی (آزادی انتخاب و اختیار اور امتحان) کے لیے تو اس نے انہیں پیدا کیا تھا۔ اور تیرے رب کی وہ بات پوری ہوگئی جو اس نے کہی تھی کہ میں جہنم کو جنوں اور انسانوں سب سے بھر دوں گا ”۔ آخر میں ، اللہ تعالیٰ بتاتا ہے کہ ان قصص کے بیان سے غرض وغایت کیا ہے ؟ یہ کہ نبی ﷺ کو حکم دیا جاتا ہے کہ آپ کفار کو آخری وارننگ دے دیں اور ان کو بتادیں کہ کس قدر عظیم عذاب آخرت ان کے انتظار میں ہے ، اور یہ کہ آپ اللہ پر توکل کر کے اللہ کی عبادت کریں اور لوگون کو اللہ کے حوالے کردیں تاکہ اللہ ان کو ان کے عمل کے مطابق جزا دے۔ وَكُلا نَقُصُّ عَلَيْكَ مِنْ أَنْبَاءِ الرُّسُلِ مَا نُثَبِّتُ بِهِ فُؤَادَكَ وَجَاءَكَ فِي هَذِهِ الْحَقُّ وَمَوْعِظَةٌ وَذِكْرَى لِلْمُؤْمِنِينَ (120) وَقُلْ لِلَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ اعْمَلُوا عَلَى مَكَانَتِكُمْ إِنَّا عَامِلُونَ (121) وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ (122) وَلِلَّهِ غَيْبُ السَّمَاوَاتِ وَالأرْضِ وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الأمْرُ كُلُّهُ فَاعْبُدْهُ وَتَوَكَّلْ عَلَيْهِ وَمَا رَبُّكَ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ (123) (11 : 121 ۔ 123) “ اور اے نبی ﷺ ، یہ پیغمبروں کے قصے ، جو ہم تمہیں سناتے ہیں یہ وہ چیزیں ہیں جن کے ذریعے ہم تمہارے دل کو مضبوط کرتے ہیں۔ ان کے اندر تم کو حقیقت کا علم ملا۔ اور ایمان لانے والوں کو نصیحت اور بیداری نصیب ہوئی۔ رہے وہ لوگ جو ایمان نہیں لاتے تو ان سے کہہ دو کہ تم اپنے طریقے پر کا کرتے رہو اور ہم اپنے طریقے پر کیے جارہے ہیں ، انجام کار کا تم بھی انتظار کرو اور ہم بھی منتظر ہیں۔ آسمان اور زمین میں جو کچھ چھپا ہوا ہے ۔ سب الہل کے قبضہ قدرت میں ہے اور سارا معاملہ اللہ کی طرف رجوع کیا جاتا ہے۔ بس اے نبی تو اس کسی بندگی کر اور اسی پر بھروسہ رکھ ، جو کچھ تم لوگ کر رہے ہو ، تیرا رب اس سے بیخبر نہیں ہے ”۔ درس نمبر 105 تشریح 100۔۔۔۔۔۔ تا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 123 ذَلِكَ مِنْ أَنْبَاءِ الْقُرَى نَقُصُّهُ عَلَيْكَ مِنْهَا قَائِمٌ وَحَصِيدٌ (100) وَمَا ظَلَمْنَاهُمْ وَلَكِنْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ فَمَا أَغْنَتْ عَنْهُمْ آلِهَتُهُمُ الَّتِي يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ شَيْءٍ لَمَّا جَاءَ أَمْرُ رَبِّكَ وَمَا زَادُوهُمْ غَيْرَ تَتْبِيبٍ (101) وَكَذَلِكَ أَخْذُ رَبِّكَ إِذَا أَخَذَ الْقُرَى وَهِيَ ظَالِمَةٌ إِنَّ أَخْذَهُ أَلِيمٌ شَدِيدٌ (102) “ یہ چند بستیوں کی سر گزشت ہے جو ہم تمہیں سنا رہے ہیں۔ ان میں سے بعض اب بھی کھڑی ہیں اور بعض کی فصل کٹ چکی ہے۔ ہم نے ان پر ظلم نہیں کیا ، انہوں نے آپ ہی اپنے اوپر ستم ڈھایا اور جب اللہ کا حکم آگیا تو ان کے وہ معبود جنہیں وہ اللہ کو چھوڑ کر پکارا کرتے تھے ان کے کچھ کام نہ آسکے اور انہوں نے ہلاکت و بربادی کے سوا انہیں کچھ فائدہ نہ دیا۔ اور تیرا رب جب کسی ظالم بستی کو پکڑتا ہے تو پھر اس کی پکڑ ایسی ہی ہوا کرتی ہے ، فی الواقع اس کی پکڑ بڑی سخت اور درد ناک ہوتی ہے ”۔ اس سے قبل جو مناظر پیش کیے گئے وہ آنکھوں کے سامنے ہیں۔ پردہ خیال پر مناظر و تصاویر بری تیزی سے آرہی ہے اور گزر رہی ہیں۔ نظر آتا ہے کہ بعض لوگ ایک عظیم طوفان میں موجوں کے تھپیڑے کھا رہے ہیں۔ بعض لوگ سخت آندھی میں گھرے ہوئے ہیں جو سب کچھ تباہ کرتی آگے بڑہ رہی ہے ، بعض لوگوں پر اس قدر شدید آواز اور چیخ آئی وہ دھڑام سے گرے اور ڈھیرے ہوگئے۔ بعض لوگ اپنے گھروں سمیت زمین کے پیٹ میں دھنس گئے اور بعض ایسے ہیں کہ جو اپنے متبعین کے جلوس کی قیادت کر رہے ہیں لیکن پورے کا پورا جلوس جاکر جہنم میں گر جاتا ہے ، غرض اقوام سابقہ کو پیش آنے والے تمام واقعات نظروں کے سامنے آجاتے ہیں اور بات لوگوں کے دل و دماغ اور ان کے شعور کی گہرائیوں تک اتر جاتی ہے تو اس حالت میں درج ذیل تبصرہ آتا ہے۔ ذَلِكَ مِنْ أَنْبَاءِ الْقُرَى نَقُصُّهُ عَلَيْكَ مِنْهَا قَائِمٌ وَحَصِيدٌ (11 : 100) “ چند بستیوں کی سرگزشت ہے جو ہم تمہیں سنا رہے ہیں۔ ان میں سے بعض اب بھی کھڑی ہیں اور بعض کی فصل کٹ چکی ہے ”۔ یہ چند بستیوں کی مختصر سرگزشت ہے ، عبرت آموزی کے علاوہ یہ پہلو بھی قابل غور ہے کہ جو پیغمبر یہ علم پیش کر رہا ہے ، مسلمہ طور پر اس سے قبل وہ ان باتوں کو نہ جانتا تھا ، لہذا اس کے پاس یہ معلومات بذریعہ وحی ہی آرہی ہیں اور قصص قرآن کے بیش کرنے کے بیشمار مقاصد میں سے یہ بھی ایک مقصد ہے۔ (منہا قائم) “ یعنی ان کے آثار ابھی تک قائم ہیں ، لوگ دیکھ رہے ہیں اور سوچ رہے ہیں کہ یہ کس قدر متمدن اور ترقی یافتہ اقوام تھیں مثلا علاقہ احقاف میں عاد کے آثار ہیں ، اور علاقہ حجر میں وقم ثمور کے آثار ابھی تک موجود ہیں اور ان میں سے بعض کی فصل کٹ چکی ہے۔ یعنی وہ “ زرع محصور ” کی طرح ہیں کہ فصل کٹ جانے کے بعد زمین چٹیل رہ گئی ہے ، مثلاً قوم نوح (علیہ السلام) اور قوم لوط (علیہ السلام) جن کے آثار بھی غائب ہیں۔ اقوام اور گروہوں کی حیثیت کی کیا ہے ، کبھی ہم نے غور کیا ہے ؟ دراصل وہ بھی انسانوں کی فصلیں ہیں ، بوئی جاتی ہیں ، بری ہوتی ہیں اور کٹ جاتی ہیں۔ ان میں سے بعض فصلیں اچھی ہوتی ہیں اور بعض بری ہوتی ہیں ، بعض فصلیں بڑھتی ہیں اور بعض گھٹتے گھٹتے مرجاتی ہیں۔ وَمَا ظَلَمْنَاهُمْ وَلَكِنْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ (11 : 101) ہم نے ان پر ظلم نہیں کیا ، انہوں نے آپ ہی اپنے اوپر ستم ڈھایا۔ ” انہوں نے اپنے فہم و ادارت کے ذرائع کو معطل کردیا تھا۔ ہدایت سے منہ موڑ لیا تھا ، اللہ کی آیات و معجزات کی تکذیب کردی تھی اور ان کو جن باتوں سے ڈرایا گیا تھا اس کے ساتھ انہوں نے مذاق کیا تھا ، لہذا وہ مظلوم نہ تھے بلکہ خود اپنے آپ پر ظلم کرنے والے تھے۔ فَمَا أَغْنَتْ عَنْهُمْ آلِهَتُهُمُ الَّتِي يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ شَيْءٍ لَمَّا جَاءَ أَمْرُ رَبِّكَ وَمَا زَادُوهُمْ غَيْرَ تَتْبِيبٍ (11 : 101) “ اور جب اللہ کا حکم آگیا تو ان کے وہ معبود جنہیں وہ اللہ کو چھوڑ کر پکارا کرتے تھے ان کے کچھ کام نہ آسکے اور انہوں نے ہلاکت و بربادی کے سواء انہیں کچھ فائدہ نہ دیا۔ ” ان قصص کے لانے کی یہ ایک دوسری غرض ہے۔ اس سورت کا آغاز ہی اس بات سے ہوا تھا کہ جو لوگ اللہ کے سوا کسی اور کے دین اور نظام کی پیروی کرتے ہیں ، ان کا انجام اچھا نہیں ہوگا۔ اس کے بعد قصص رسل میں تمام رسولوں نے لوگوں کو باری باری بےانجام سے ڈرایا۔ تمام رسولوں نے لوگوں کو کہا کہ تم نے جن خود ساختہ الہوں کی پیروی اختیار کر رکھی ہے ، وہ تمہیں نہیں بچا سکتے چناچہ تمام قصص کا یہ خلاصہ ہے کہ اللہ کے سوا کوئی الہ بھی کسی کو کوئی فائدہ نہیں دے سکتا اور جب اللہ کا حکم آئے گا اور قیامت برپا ہوگی تو وہاں یہ الہ کسی بھی پیروکار کو عذاب سے نہ بچا سکیں گے بلکہ ان کی وجہ سے خسارہ اور بربادی ہوگی (یہاں لفظ تتبیب استعمال ہوا ہے۔ جو لفظی اور معنوی دونوں اعتبار سے سخت بربادی کا اظہار کرتا ہے) یہ بربادی زیادہ اس لیے ہوگی کہ ان لوگوں نے ان جھوٹے خداؤں پر اندھا اعتماد کیا اور اس وجہ سے یہ اعراض اور تکذیب میں آگے بڑھ گئے اس وجہ سے وہ زیادہ سے زیادہ سخت عذاب کے مستحق ٹھہرے یہ الہ تو جس طرح نفع نہیں دے سکتے تھے اسی طرح نقصان بھی نہ دے سکتے تھے لیکن اس اندھے اعتماد کی وجہ سے خسارہ بڑھ گیا۔ وَكَذَلِكَ أَخْذُ رَبِّكَ إِذَا أَخَذَ الْقُرَى وَهِيَ ظَالِمَةٌ (11 : 102) “ اور تیرا رب جب کسی ظالم بستی کو پکڑتا ہے تو پھر اس کی پکڑ ایسی ہی ہوا کرتی ہے۔ ” (اسی طرح) کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح قصص میں بیان ہوا ، جس طرح اقوام ملل کو تباہ اور ہلاک کیا گیا ، جب انہوں نے ظلم کیا۔ ظالم سے مراد مشرکہ ہے یعنی جب وہ اللہ کی ربوبیت اور حاکمیت سے رو گردانی کر کے کسی اور کو رب اور حاکم بنا لیتی ہیں اس طرح وہ اپنے اوپر ظلم کرتی ہیں کیونکہ شرک و فساد میں مبتلا ہو کر عذاب آخرت کی مستحق بنتی ہیں ایسی اقوام شرک کی وجہ سے دعوت توحید دعوت اصلاح سے محروم ہوجاتی ہیں اور اس طرح زمین ظلم و فساد سے بھر جاتی ہے۔ إِنَّ أَخْذَهُ أَلِيمٌ شَدِيدٌ (11 : 102) “ فی الواقع اس کی پکڑ بڑی سخت اور درد ناک ہوتی ہے۔ ” یہ سزائے شدید اللہ تعالیٰ مہلت کے بعد دیتا ہے جب لوگ خوب عیاشی کرلیتے ہیں ، یوں وہ ابتلاء میں پڑجاتے ہیں۔ پھر ان کے عذرات بھی غتم ہوجاتے ہیں ، اس لیے کہ رسولوں کو بھیج کر اللہ تعالیٰ ان پر حجت تمام کردیتا ہے۔ پھر جب ان اقوام میں ظلم کا دور دورہ ہوتا ہے اور مظلوموں پر ظالموں کی گرفت مضبوط ہوجاتی ہے اور حالت یہ ہوجاتی ہے کہ دعوت حق دینے والے مصلحین نہایت ہی قلیل اور بےاثر رہ جاتے ہیں اور ظالموں کے آگے ان کی ایک نہیں چلتی۔ کیونکہ وہ ظلم میں بہت آگے جا چکے ہوتے ہیں۔ اس کے بعد اہل ایمان ان ظالموں سے علیحدہ ہوجاتے ہیں جو ظلم میں بہت آگے بڑھ چکے ہوتے ہیں۔ یہ اہل ایمان پھر اپنے آپ ہی کو امت سمجھتے ہیں ، اپنے دین اور اپنے رب کی پیروی کرتے ہیں ، ان کا اپنا قائد ہوتا ہے اور اپنے روابط ہوتے ہیں اور امت ظالمہ کو وہ چھوڑ دیتے ہیں کہ وہ اپنے قدرتی انجام تک پہنچ جائے اللہ کی اس سنت کے مطابق جو اس نے اس کائنات کے لیے تجویز کر رکھی ہے ، ہمیشہ ہمیشہ کے ۔ یہ دنیاوی پکڑ دراصل آخرت کے لیے ایک علامتی سزا ہوتی ہے اور جو لوگ عذاب آخرت سے ڈرتے ہیں وہ اس پکڑ سے ڈرتے ہیں کیونکہ وہ اسے دیکھ رہے ہوتے ہیں ان کو اللہ نے بہرحال یہ بصیرت دے دی ہوتی ہے کہ جو خدا دنیا میں اس قدر شدید عذاب کسی قوم کو دے سکتا ہے وہ آخرت میں اس سے بھی شدید عذاب دے سکتا ہے ، اس لیے وہ ڈرتے ہیں۔ یہاں قرآن مجید انسان کو اچانک دنیا کے مناظرے قیامت کے مناظر کی طرف لے جاتا ہے اور یہ قرآن مجید کا خاص اسلوب ہے کہ وہ دنیا کے مناظر کے بعد اچانک آخرت کا منظر پیش کردیتا ہے۔
Top