Tafseer-e-Mazhari - An-Najm : 6
ذُوْ مِرَّةٍ١ؕ فَاسْتَوٰىۙ
ذُوْ مِرَّةٍ ۭ : صاحب قوت ہے فَاسْتَوٰى : پھر پورا نظر آیا۔ سیدھا کھڑا ہوگیا۔ درست ہوگیا
(یعنی جبرائیل) طاقتور نے پھر وہ پورے نظر آئے
ذو مرۃ . جو پیدائشی طاقتور ہے۔ مِرَّۃٌ : قوّت ‘ شدت ‘ پختگی ‘ مضبوط کرنا (قاموس) اللہ کی گرفت بہت سخت ہے وہی ہر چیز کی اصل کو مضبوط کرتا ہے۔ فاستوی . پھر وہ (فرشتہ اپنی) اصلی صورت میں نمودار ہوا۔ لفظ اِسْتَوٰی متشابہات میں سے ہے جس کی مراد سوا اللہ کے کوئی نہیں جانتا۔ سلف (رح) نے آیت : الرَّحْمٰنُ عَلُی الْعَرْشِ اسْتَوٰی کی تشریح میں صراحت کی ہے کہ اِسْتِوَا : کا معنی معلوم ہے (لیکن استواء رحمٰن) بےکیفیت ہے۔ یعنی استواء کا معنی معلوم ہے لیکن کیفیت مجہول) سہیل بن عبداللہ تستری نے فرمایا : کسی مؤمن کے لیے جائز نہیں کہ وہ یہ سوال کرے کہ جس نے استواء کو پیدا کیا اس کا استواء کیسا ہے ؟ ہم پر رضا اور تسلیم لازم ہے۔ امام مالک (رح) بن انس ؓ نے فرمایا : کیفیت نامعلوم ہے اور استواء (کا ترجمہ) نامعلوم نہیں ہے اور استواء (کی کیفیت) کے متعلق سوال کرنا بدعت ہے۔ حاصل مطلب یہ ہے کہ اللہ نے اپنے رسول کو جو قرآن سکھایا تو رسول ﷺ سے اللہ کی نسبت ایسی ہی نامعلوم ہے جیسے عرش مجید یا کعبہ شریف سے اللہ کی نسبت مجہول ہے۔
Top