Al-Quran-al-Kareem - An-Najm : 6
ذُوْ مِرَّةٍ١ؕ فَاسْتَوٰىۙ
ذُوْ مِرَّةٍ ۭ : صاحب قوت ہے فَاسْتَوٰى : پھر پورا نظر آیا۔ سیدھا کھڑا ہوگیا۔ درست ہوگیا
جو بڑی طاقت والا ہے، سو وہ بلند ہوا۔
(1) ذومرۃ : طاقت، توانائی اور مضبوطی والا۔ ”مرۃ“ کا لفظ اصل میں رسی کو بٹنے اور بل دے کر مضبوط کرنے کے معنی میں آتا ہے۔ اس پر تنوین تعظیم کیلئے ہے ، اس لئے ترجمہ ”بڑی طاقت والا“ کیا گیا ہے۔ اس طاقت میں عملی اور علمی دونوں طاقتیں شامل ہیں۔”شدید القوی“ کے بعد ”ذومرۃ“ کے ساتھ ان کی طاقت اور توانائی کو مزید اجاگر فرمایا ہے۔ بعض مفسرین نے ”شدید القوی“ سے عملی قوتیں اور ”ذومرۃ“ سے علمی اور عقلی قوتیں مراد لی ہیں، مگر دونوں لفظ ہر قسم کی قوتوں پر ساتعملا ہوتے ہیں، اس لئے تاکید مراد لینا راجح معلوم ہوتا ہے۔ (2) ”فاستوی“ برابر ہوا، بلند ہوا۔”افق“ دور سے نظر آنے والی وہ جگہ جہاں زمین و آسمان ملتے ہوئے نظر آتے ہیں اور آسمان نیلے گنبد کی طرح بلند ہوتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ ”افق اعلیٰ“ مشرقی کنارا، جہاں سے سورج طلوع کے وقت بلند ہوتا ہے۔ اسی کو دوسری جگہ ”الافق المبین“ فرمایا، جیسا کہ فرمایا :(ولقد راہ بالافق المبین) (الکتویر : 23)”اور بلاشبہ یقیناً اس نے اس (جبریل) کو (آسمان کے) روشن کنارے پر دیکھا ہے۔“ (3) فتدلی : یہ ”’ لو“ سے مشتق ہے، سورة یوسف میں ہے۔ (فاذدلی دلوہ) (یوسف : 19)”تو اس نے اپنا ڈول لٹکایا۔“”تدلی“ لٹک آیا، یعنی فضا میں رہتے ہوئے کچھ نیچے آگیا۔ ”قاب“ مقدار۔ ”او ادنی“ یا زیادہ قریب۔ یعنی اگر آدمی اس فاصلے کو دیکھے تو اسے یہ دو کمانوں کے برابر یا اس سے بھی کم نظر آئے۔ بعض اہل علم نے فرمایا، یہاں ”او“ ”بل“ کے معنی میں ہے، یعنی دو کمانوں کے برابر بلکہ اس سے بھی کم، یحساب کہی ونس علیہ السام کے متعلق فرمایا :(وارسلنہ الی مائۃ الف او یریدون) (الصافات :138)”اور ہم نے اسے ایک لاکھ کی طرف بھیجا، بلکہ وہ زیادہ ہوں گے۔“ (4) رسول اللہ ﷺ نے اپنی زندگی میں جبریل ؑ کو دو بار ان کی اصل صورت میں دیکھا ہے۔ ان آیات میں پہلی بار دیکھنے کا ذکر ہے، جبریل ؑ آسمان کے مشرقی کنارے پر نمودار ہوئے، تو زمین و آسمان کا درمیانی فاصلہ ان سے پر ہوگیا ، جیسا کہ جابر بن عبداللہ ؓ نے بیان کیا کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ (پہلی وحی کے بعد) وحی کے وقفے کے متعلق بیان فرما رہے تھے :(فینا انا مشی اذ سمعت صوتاً من السمآء فرفعت بصری قبل السمآء فاذا الملک الذی جاء نبی بجراء فاعد علی کرسی بین السمآء والارض فجئت منہ حتی ھویت الی الارض فجنت اھلی ففک زملونی زماونی فرما ونی فانزل اللہ تعالیٰ (یا یھا المدثر، قم فانذر) (الی فاھجر) ثم حمی الوحی و تتابع) (بخاری، التفسیر، سورة المدثر ، باب :(والرجز فاھجر) (: 3926)”ایک دفعہ میں چلا جا رہا تھا، اچانک میں نے آسمان سے ایک آواز سنی تو میں نے اپنی نگاہ آسمان کی طرف اٹھئای تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہی فرشتہ جو میرے پاس حرا میں آیا تھا وہ آسمان و زمین کے درمیان ایک کرسی پر بیٹھا ہے، تو میں اس سے ڈر گیا، یہاں تک کہ میں زمین پر گرگیا، پھر میں اپنے گھر والوں کے پاس آیا اور کہا، مجھے چادر اوڑھا دو ، مجھے چادر اوڑھا دو ، تو انہوں نے مجھے چادر اوڑھا دی۔ تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں :(یایھا المدثر، قم فانذر ، وربک فکبر ، وثیابک فطھر، والرجز فاھجر) پھر وحی گرما گرم ہوگئی اور پے در پے آنے لگی۔“ رسول اللہ ﷺ کے جبریل ؑ کو ان کی اصل صورت میں دیکھنے کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے : (حدثنا الشیانی قال سمعت زرا عن عبداللہ (فکان قاب قوسین او ادنی، فاوحی الی عبدہ ما اوحی) قال حدثنا ابن مسعود انہ رای جبریل لعہ ست مائۃ جناح) (بخاری، التفسیر، سورة النجم، باب :(فکان قاب قوسین او ادلی؛3856)”زر (بن حبیشن) نے عبداللہ بن مسعود ؓ سے (فکان قاب قوسین او ادنی ، فاوحی الی عبدہ ما اوحی) کی تفسیر روایت کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں عبداللہ بن مسعود ؓ نے بیان کیا کہ آپ ﷺ نے جبریل کو دیکھا، ان کے چھ سو پر تھے۔“ ان آیات کا مقصد کفار کے اس الزام کی تردید ہے جو وہ رسول اللہ ﷺ پر لگاتے تھے کہ کوئی عجمی آدمی اسے قرآن کی باتیں سکھا جاتا ہے اور یہ ہمیں سنا کر کہتا ہے کہ یہ اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہیں۔ اس کے جواب میں فرمایا گیا کہ کسی عجمی شخص نے نہیں، بلکہ ایک نہایت مضبوط قوتوں اور بڑی طاقتو الے فرشتے نے اسے اس قرآن کی تعلیم دی ہے۔ چناچہ ایک دفعہ ایسا ہوا کہ وہ شدید القوی فرشتہ مشرق افق پر بلند ہوا، اس وقت وہ آسمان و زمین کے درمیان ایک کسری پر بیٹھا ہوا تھا پھر وہ فضا ہی میں نیچے اترتا ہوا رسول اللہ ﷺ کے اتنا قریب ہوا کہ آپ سے دو کمانوں سے بھی کم فاصلے پر آگیا۔
Top