Urwatul-Wusqaa - An-Najm : 6
ذُوْ مِرَّةٍ١ؕ فَاسْتَوٰىۙ
ذُوْ مِرَّةٍ ۭ : صاحب قوت ہے فَاسْتَوٰى : پھر پورا نظر آیا۔ سیدھا کھڑا ہوگیا۔ درست ہوگیا
جو بڑا زور آور اور قائم ہونے والا ہے
یہ اس نے کیا جو بڑا زور آور اور قائم رہنے والا ہے 6 ؎ (ذومرہ) ذو کے معنی والا یعنی صاحب کے ہیں اور یہ اسم ہے اس کے ذریعہ اسماء اجناس و انواع کو موسوم کیا جاتا ہے یہ اسمائے ستہ مکبرہ میں سے ہے یعنی ان چھ اسموں میں سے ہے کہ جب ان کی تصغیر نہ ہو اور وہ غیریائے متکلم کی طرف مضاف ہوں تو ان کو پیش کی حالت میں لایا جاتا ہے۔ علامہ سہیل کہتے ہیں کہ ” دو “ کے وصف میں صاحب کے وصف کی بہ نسبت زیادہ بلاغت ہے اور اس کے ذریعہ اضافت میں زیادہ شرف ہے کیونکہ ذو تابع کی طرف مضاف ہوتا ہے اور صاحب متبوع کی طرف جیسے بولتے وقت ہم بولیں گے کہ ابوہریرہ صاحب انہیں اور اس کو یوں نہیں بولیں گے۔ النبی صاحب ابی ہریرۃ لیکن ” ذو “ کے ساتھ جب ذوالمال اور ذوالعرش کہیں گے تو یہ پہلا اسم آپ کو متبوع ہی ملے گا تابع نہیں “ اور (دو ) کا استعمال اللہ تعالیٰ کی ذات کے لئے عام ہے۔ جیسے (ذوالفضل العظیم ذوالرحمتہ) وغیرہ (مرۃ) کی اصل م ر رہے اور (مرۃ) قوت اور عقل کو کہتے ہیں۔ صاحب قوۃ اور صاحب عقل کلی اور یہ وہی ذات اقسد ہے جس کی صفت میں گزشتہ آیت میں (شدید القوی) کہا گیا اور سورة الذاریات میں (ان اللہ ھوالرزق ذوالقوۃ المتین) کہا گیا ہے یعنی اللہ تعالیٰ رب ذوالجلال والاکرام کی ذات اقدس جو مادی قوتوں کا مالک اور صاحب عقل کل ہے۔ قوت اسی سے ہے اور عقل بھی اسی سے ہے جو خود طاقت ور ہے کہ اس کی طاقت و قوت عطائی نہیں ہے۔ (مرۃ) قوت ‘ شدت ‘ پختگی اور مضبوط کرنا ہے۔ (قاموس) طاقت و قوت میں کون سخت ہے ؟ اللہ تعالیٰ ۔ ہرچیز کو مضبوط کرنے والا کون ہے ؟ اللہ تعالیٰ اور حقیقت یہ ہے کہ یہ سارا مضمون ہی اشارات و استعارات اور محاورات و امثال پر مشتمل ہے۔ اور اس ایک ایک اشارہ و استعارہ میں اتنا اتنا مضمون بند ہے کہ اگر اس کو کھولا جائے تو ایک مستقل جلد تیار ہوجائے اور پھر یہ بھی کہ ایک ادن دیکھی اور اس سمجھی بات کو بیان کرنے کے لئے اشارہ و استعارہ ہی سے کام لیا جاسکتا ہے کیونکہ یہ باتیں مشاہدہ میں آنے والی نہیں ہیں بلکہ ایک اشارہ کو دوسرے اشارہ سے اور ایک استعارہ کو دوسرے استعارہ ہی سے بیان کیا جاسکتا ہے اور اسی طرح اس کو بیان کیا گیا ہے۔ غور کرو کہ (ذومرۃ) کے بعد (فاسعوی) کا لفظ ہے گویا پہلا اشارہ کیا تھا کہ اب دوسرا اس کی جگہ آگیا جو پہلے اشارہ سے بھی زیادہ گہرا اشارہ ہے۔ استوی اس نے قصد کیا۔ اس نے قرار پکڑا۔ وہ قائم ہوا۔ وہ سنبھل گیا۔ وہ چڑھا۔ وہ سیدھا بیٹھا استواء ماضی کا صیغہ مذکر غائب ہے اللہ تعالیٰ کے لئے (اسعراء علی العرش) کے الفاظ دوسری جگہ قرآن کریم میں بولے گئے ہیں لہٰذا اس سلسلہ میں یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ قرآن و حدیث میں بہت سے الفاظ ایسے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی صفات میں بیان کئے گئے ہیں اور مخلوق کے اوصاف میں بھی ان کا ذکر ہوا ہے جیسے (حی ‘ سمیع) اور (بصیر) وغیرہ الفاظ اللہ رب ذوالجلال والاکرام کے لئے بولے گئے ہیں اور انسانوں کے لئے بھی لیکن دونوں جگہ ان کے استعمال کی حیثیت بالکل جداگانہ ہے کسی مخلوق کو سمیع وبصیر کہنے کا یہ مطلب ہے کہ اس کے پاس دیکھنے والی آنکھ اور سننے والے کان موجود ہیں۔ اب اس جگہ دو چیزیں ہوئیں ایک تو وہ آلہ جو سننے اور دیکھنے کا مبدا اور ذریعہ ہے یعنی کان اور آنکھ دوسرا اس کا نتیجہ اور غرض وغایت یعنی وہ خاص علم جو آنکھ سے دیکھنے اور کان کے سننے سے حاصل ہوتا ہے پس جب مخلوق کو سمیع وبصیر کہا جائے گا تو اس کے لئے یہ مبدا اور غایت دونوں چیزیں معتبر ہوں گی جن کی کیفیت ہم کو معلوم ہے لیکن یہی الفاظ جب اللہ رب ذوالجلال والاکرام کے لئے استعمال کئے جائیں گے تو یقینا ان سے وہ مبادی اور کیفیات جسمانیہ نہیں ماد لئے جائیں گے جو مخلوق کے خواص میں داخل ہیں اور جن سے اللہ رب کریم عزاسمہ قطعاً منزہ ہے البتہ یہ اعتقاد رکھنا ضروری ہے کہ سمع و بصر کا مبدا اس ذات اقدس میں بدرجہ اتم موجود ہے اور اس کا نتیجہ یعنی وہ علم جو رویت و سماع سے حاصل ہوتا ہے اس کو بدرجہ کمال حاصل ہے اور دیکھنے اور سننے کی کیا کیفیت ہے تو ظاہر ہے کہ اس سوال کے جواب میں بجز اس کے اور کیا کہا جاسکتا ہے کہ دیکھنا اور سننا مخلوق کی طرح نہیں اور اسی طرح اس کی تمام صفات کو سمجھنا چاہئے کہ صفت باعتبار اپنے اصلی مبدا وغایت کے ثابت ہے مگر اس کی وہ کیفیت بیان نہیں کی جاسکتی اور نہ ہی کسی آسمانی شریعت نے انسان کو کبھی اس پر مجبور کیا ہے کہ وہ خواہ مخواہ ان حقائق میں غور و فکر کر کے جو اس کی عقل و ادراک کی دسترس سے باہر ہیں بیکار اپنے عقل و دماغ کو پریشان کرے اسی اصول پر (اسعوی علی العرش) اور مطلق (اسعوی) کو بھی سمجھ لینا چاہئے۔ بلاشبہ (استوی) کا ترجمہ ” تمکن و استقرار “ یعنی قرار پکڑنے اور قائم ہونے ہی سے کیا ہے اس کی وضاحت ہم عروہ الموثقی ‘ جلد سورم سورة الاعراف کی آیت 54 ‘ جلد چہارم سورة یونس کی آیت 3 ‘ ‘ سورة الرعد کی آیت 2 ‘ جلد پنجم سورة طٰہ کی آیت 5 ‘ جلد ششم سورة الفرقان کی آیت 59 ‘ جلد ہفتم سورة السجدہ کی آیت 4 میں بیان کرچکے ہیں وہاں سے ملاحظہ کریں اور سورة الشوریٰ کی آیت 11 میں ہم واضح کرچکے ہیں کہ لیس کمثلہ میں جس طرح اس کی ذات کی مانند کوئی چیز نہیں اس کی صفات کی مثل بھی ممکن نہیں ہے۔ پھر جب واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات انسان کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہونے کے باوجود انسان کے برابر اور محاذ میں نہیں تو (استوی) میں برابر اور محاذ آخر کیوں مراد لیا جائے اور اللہ تعالیٰ کے آسمان اول میں آنے سے جب اس کا اتار چڑھائو مراد نہیں تو اس افق اور استوی میں اس کا نزول اس طرح کا کیوں مراد لیا جائے گا جو عام مخلوق کے حق میں مراد لیا جاتا ہے۔ اس میں آخر وہ کونسی بات ہضم ہونے والی نہیں جس سے ذات باری کا انکار کر کے اس جگہ جبریل مراد لیا جائے یا یہ کہ اس کو مراد لینا ضروری ٹھہرے۔ جب ایک بار یہ بات واضح ہوگئی کہ اللہ تبارک و تعالیٰ جو واجب الوجود ہے کسی جسم کا محتاج نہیں اور نہ وہ جسم رکھتا ہے تو اس کی صفات میں آخر جسم کا تصور کیونکر جائز ہو سکتا ہے ؟ پھر ایک بات کو ایک بار کرنے کی بجائے اگر ایک ہزار بار کہی جائے تو کیا اس میں فرق آجائے گا۔
Top