Mufradat-ul-Quran - An-Najm : 6
ذُوْ مِرَّةٍ١ؕ فَاسْتَوٰىۙ
ذُوْ مِرَّةٍ ۭ : صاحب قوت ہے فَاسْتَوٰى : پھر پورا نظر آیا۔ سیدھا کھڑا ہوگیا۔ درست ہوگیا
(یعنی جبرئیل) طاقتور نے پھر وہ پورے نظر آئے
ذُوْ مِرَّۃٍ۝ 0 ۭ فَاسْتَوٰى۝ 6 ۙ ذو ذو علی وجهين : أحدهما : يتوصّل به إلى الوصف بأسماء الأجناس والأنواع، ويضاف إلى الظاهر دون المضمر، ويثنّى ويجمع۔ وَلكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ [ البقرة/ 251] والثاني في لفظ ذو : لغة لطيّئ، يستعملونه استعمال الذي، ويجعل في الرفع، والنصب والجرّ ، والجمع، والتأنيث علی لفظ واحد ( ذ و ) ذو ( والا ۔ صاحب ) یہ دو طرح پر استعمال ہوتا ہے ( 1) اول یہ کہ اسماء اجناس وانوع کے ساتھ توصیف کے لئے اسے ذریعہ بنایا جاتا ہے ۔ اس صورت میں اسم ضمیر کیطرف مضاف نہیں ہوتا بلکہ ہمیشہ اسم ظاہر کی طرف مضاف ہوتا ہے اور اس کا تنثیہ جمع بھی آتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَلكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ [ البقرة/ 251] لیکن خدا اہل عالم پر بڑا مہرابان ہے ۔ ( 2 ) دوم بنی طیی ذوبمعنی الذی استعمال کرتے ہیں اور یہ رفعی نصبی جری جمع اور تانیث کی صورت میں ایک ہی حالت پر رہتا ہے مرر المُرُورُ : المضيّ والاجتیاز بالشیء . قال تعالی: وَإِذا مَرُّوا بِهِمْ يَتَغامَزُونَ [ المطففین/ 30] ، وَإِذا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّوا كِراماً [ الفرقان/ 72] تنبيها أنّهم إذا دفعوا إلى التّفوّه باللغو کنّوا عنه، وإذا سمعوه تصامموا عنه، وإذا شاهدوه أعرضوا عنه، وقوله : فَلَمَّا كَشَفْنا عَنْهُ ضُرَّهُ مَرَّ كَأَنْ لَمْ يَدْعُنا [يونس/ 12] فقوله : مَرَّ هاهنا کقوله : وَإِذا أَنْعَمْنا عَلَى الْإِنْسانِ أَعْرَضَ وَنَأى بِجانِبِهِ [ الإسراء/ 83] وأمْرَرْتُ الحبلَ : إذا فتلته، والمَرِيرُ والمُمَرُّ : المفتولُ ، ومنه : فلان ذو مِرَّةٍ ، كأنه محکم الفتل . قال : ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى [ النجم/ 6] . ويقال : مَرَّ الشیءُ ، وأَمَرَّ : إذا صار مُرّاً ، ومنه ( م ر ر ) المرور ( م ر ر ) المرور کے معنی کسی چیز کے پاس سے گزر جانے کے ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : وَإِذا مَرُّوا بِهِمْ يَتَغامَزُونَ [ المطففین/ 30] اور جب ان کے پاس سے گزرتے تو باہم آنکھوں سے اشارہ کرتے ۔ وَإِذا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّوا كِراماً [ الفرقان/ 72] اور جب ان کو بیہودہ چیزوں کے پاس سے گزرنے کا اتفاق ہو تو شریفانہ انداز سے گزرجاتے ہیں ۔ نیز آیت کریمہ میں اس بات پر بھی متنبہ کیا ہے کہ اگر انہیں بیہودہ بات کہنے پر مجبوری بھی کیا جائے تو کنایہ سے بات کرتے ہیں اور لغوبات سن کر اس سے بہرے بن جاتے ہیں اور مشاہدہ کرتے ہیں تو اعراض کرلیتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : فَلَمَّا كَشَفْنا عَنْهُ ضُرَّهُ مَرَّ كَأَنْ لَمْ يَدْعُنا[يونس/ 12] پھر جب ہم اس تکلیف کو اس سے دور کردیتے ہیں ( تو بےلحاظ ہوجاتا اور ) اس طرح گزرجاتا ہے کہ گویا تکلیف پہنچنے پر ہمیں کبھی پکارا ہی نہیں تھا ۔ میں مربمعنی اعرض ہے ۔ جیسے فرمایا : وَإِذا أَنْعَمْنا عَلَى الْإِنْسانِ أَعْرَضَ وَنَأى بِجانِبِهِ [ الإسراء/ 83] اور جب ہم انسان کو نعمت بخشتے ہیں تو روگردان ہوجاتا اور پہلو پھیر لیتا ہے ۔ امررت الحبل کے معنی رسی بٹنے کے ہیں ۔ اور بٹی ہوئی رسی کو مریر یاممر کہاجاتا ہے اسی سے فلان ذومرکہاجاتا ہے اسی سے فلان ذومرۃ کا محاورہ ہے جس کے معنی طاقت ور اور توانا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى[ النجم/ 6] طاقتور نے ۔ مرالشئی وامر کسی چیز کا تلخ ہونا ۔ اسی سے محاورہ ہے۔ فلان مایمر سو مایحلی کہ فلاں نہ تو کڑوا ہے اور نہ میٹھا ۔ یعنی نہ تو اس سے کسی کو فائدہ پہنچتا ہے اور نہ ہی نقصان ۔ اور آیت کریمہ حَمَلَتْ حَمْلًا خَفِيفاً فَمَرَّتْ بِهِ [ الأعراف/ 189]( تو ) اسے ہلکا ساحمل رہ جاتا ہے ۔ اور وہ اس کے ساتھ چلتی پھرتی ہے ۔ میں مرت بمعنی استمرت ہے ۔ یعنی وہ اسے اٹھائے چلتی پھرتی رہتی ہے ۔ مرۃ ( فعلۃ ) ایک بار مرتان ض ( تثنیہ ) دو بار قرآن میں ہے : يَنْقُضُونَ عَهْدَهُمْ فِي كُلِّ مَرَّةٍ [ الأنفال/ 56] پھر وہ ہر بار اپنے عہد کو توڑ ڈالتے ہیں ۔ وَهُمْ بَدَؤُكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ [ التوبة/ 13] اور انہوں نے تم سے پہلی بار ( عہد شکنی کی ) ابتداء کی ۔إِنْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِينَ مَرَّةً [ التوبة/ 80] اگر آپ ان کے لئے ستربار بخشیں طلب فرمائیں ۔ إِنَّكُمْ رَضِيتُمْ بِالْقُعُودِ أَوَّلَ مَرَّةٍ [ التوبة/ 83] تم پہلی مرتبہ بیٹھ رہنے پر رضامند ہوگئے ۔ سَنُعَذِّبُهُمْ مَرَّتَيْنِ [ التوبة/ 101] ہم ان کو دو بار عذاب دیں گے ۔ ثَلاثَ مَرَّاتٍ [ النور/ 58] تین دفعہ ( یعنی تین اوقات ہیں ۔ استوا أن يقال لاعتدال الشیء في ذاته، نحو : ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى[ النجم/ 6] ( س و ی ) المسا واۃ کسی چیز کے اپنی ذات کے اعتبار سے حالت اعتدال پر ہونے کے لئے بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى[ النجم/ 6] یعنی جبرائیل ) طاقتور نے پھر وہ پورے نظر آئے
Top