Fi-Zilal-al-Quran - Al-Kahf : 78
قَالَ هٰذَا فِرَاقُ بَیْنِیْ وَ بَیْنِكَ١ۚ سَاُنَبِّئُكَ بِتَاْوِیْلِ مَا لَمْ تَسْتَطِعْ عَّلَیْهِ صَبْرًا
قَالَ : اس نے کہا ھٰذَا : یہ فِرَاقُ : جدائی بَيْنِيْ : میرے درمیان وَبَيْنِكَ : اور تمہارے درمیان سَاُنَبِّئُكَ : اب تمہیں بتائے دیتا ہوں بِتَاْوِيْلِ : تعبیر مَا : جو لَمْ تَسْتَطِعْ : تم نہ کرسکے عَّلَيْهِ : اس پر صَبْرًا : صبر
اس نے کہا۔ بس میرا تمہارا ساتھ ختم ہوا۔ اب میں تمہیں ان باتوں کی حقیقت بتاتا ہوں جن پر تم صبر نہ کرسکے۔
یہاں تک حضرت موسیٰ اور ہم جو قرآن پڑھتے ہیں ، یہ حیران کن واقعات دیکھتے چلے آئے ہیں۔ یہ عجیب واقعات ہیں۔ ہم ان کے راز کو نہیں جانتے۔ لیکن ان کے بارے میں ہر قاری قرآن کی رائے دہی ہے جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی ہے بلکہ ہمیں تو یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ یہ شخص ہے کون جو اس قسم کے عجیب اقدامات کر رہا ہے۔ کیونکہ قرآن کریم نے ہمیں اس کا نام بھی نہیں بتایا۔ نام تو قرآن نے اس لئے نہیں بتایا کہ اس عجیب اور حیرت انگیز قصے ، کی فضا مزید حیران کن ہوجائے بلکہ نام کے اظہار کی یہاں اہمیت ہی نہیں ہے بلکہ اصل اہمیت کی ہے کہ اس کائنات میں ان واقعات کی پشت پر جو حکمت ہے وہ معلوم ہوجائے اور بظاہر جو تصرفات عجیب نظر آتے ہیں وہ معقول نظر آئیں اور ان کے دور رس اسباب معلوم ہوں۔ نامع معلوم ہو کہ نہ ہو ، بلکہ ان کی پراسرار شخصیت کے ساتھ موزوں یہی ہے کہ وہ نامعلوم رہیں۔ کیونکہ پوری سورت اور اس قصے میں غیبی قوتیں کام کر رہی ہیں۔ موسیٰ (علیہ السلام) اس بندئہ خدا سے ملنا چاہتے ہیں۔ وہ اپنا سفر طے کر رہے ہیں لیکن پتھر کے پاس حضرت موسیٰ کے غلام کھانا بھول جاتے ہیں۔ بھول بھی اس لئے جاتے ہیں کہ واپس اس چٹان تک لوٹ آئیں۔ وہاں یہ شخص غائبانہ انداز میں موجود ہوجاتا ہے۔ اگر موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھی غذا نہ بھولتے تو وہ ان سے نہ مل سکتے اور آگے ہی چلے جاتے۔ لیکن دست قدرت نے انہیں دوبارہ پتھر تک لوٹایا۔ غرض قصے کی تمام فضا پراسرار ہے اور ایک کردار کا نام تک معلوم نہیں ہے۔ لیکن اب ان پر اسرار واقعات کا راز کھلتا ہے۔
Top