Fi-Zilal-al-Quran - Maryam : 8
قَالَ رَبِّ اَنّٰى یَكُوْنُ لِیْ غُلٰمٌ وَّ كَانَتِ امْرَاَتِیْ عَاقِرًا وَّ قَدْ بَلَغْتُ مِنَ الْكِبَرِ عِتِیًّا
قَالَ : اس نے کہا رَبِّ : اے میرے رب اَنّٰى : کیسے يَكُوْنُ : ہوگا وہ لِيْ غُلٰمٌ : میرے لیے۔ میرا۔ لڑکا وَّكَانَتِ : جبکہ وہ ہے امْرَاَتِيْ : میری بیوی عَاقِرًا : بانجھ وَّقَدْ بَلَغْتُ : اور میں پہنچ چکا ہوں مِنَ : سے۔ کی الْكِبَرِ : بڑھاپا عِتِيًّا : انتہائی حد
“ عرض کیا ” پروردگار ، بھلا میرے ہاں کیسے بیٹا ہوگا جبکہ میری بیوی بانجھ ہے اور میں بوڑھا ہو کر سوکھ چکا ہوں ؟
قال رب انی یکون لی غلم و کانت امراتی عاقراً وقدبلغت من الکبر عتیاً (91 : 8) ” عرض کیا ، پروردگار ! بھلا میرے ہاں کیسے بیٹا ہوگا ، جبکہ میری بیوی بانجھ ہے اور میں بوڑھا ہو کر سوکھ چکا ہوں۔ “ چونکہ ان کو ایک عملی صورتحال سے دوچار ہنا پڑا۔ پھر اللہ کا وعدہ بھی ہے اور ٹال ہے۔ ان کو پورا پورا یقین ہے کہ یہ عمل ہونے والا ہے لیکن وہ اس کی کیفیت معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ موجودہ حالات میں یہ وعدہ کس طرح حقیقت کا روپ اختیار کرے گا تاکہ ان کا دل مطمئن ہو۔ یہ ایک قدرتی اور طبیعی نفسیاتی حالت ہوتی ہے۔ حضرت زکریا نبی صالح ہیں مگر ایک بشر ہیں اور ایک واقعیت پسند انسان۔ وہ جاننا چاہتے ہیں کہ واقعی حقیقی صورت حالات کو اللہ کس طرح بدل دے گا ؟ اللہ کی ہاں سے اس کا بھی جواب آجاتا ہے۔ اے بندے یہ کام کوئی مشکل نہیں ہے۔ ذرا اپنے نفس کو تو دیکھو کہ تم کیسے وجود میں آگئے جبکہ تم سرے سے تھے ہی نہیں۔ ہر ذات ذات کی یہی مثال ہے۔ اس کائنات کی ہر زندہ چیز نہ تھی اور ہوگئی۔
Top