Al-Qurtubi - Al-Israa : 8
قَالَ رَبِّ اَنّٰى یَكُوْنُ لِیْ غُلٰمٌ وَّ كَانَتِ امْرَاَتِیْ عَاقِرًا وَّ قَدْ بَلَغْتُ مِنَ الْكِبَرِ عِتِیًّا
قَالَ : اس نے کہا رَبِّ : اے میرے رب اَنّٰى : کیسے يَكُوْنُ : ہوگا وہ لِيْ غُلٰمٌ : میرے لیے۔ میرا۔ لڑکا وَّكَانَتِ : جبکہ وہ ہے امْرَاَتِيْ : میری بیوی عَاقِرًا : بانجھ وَّقَدْ بَلَغْتُ : اور میں پہنچ چکا ہوں مِنَ : سے۔ کی الْكِبَرِ : بڑھاپا عِتِيًّا : انتہائی حد
انہوں نے کہا پروردگار میرے ہاں کس طرح لڑکا (پیدا) ہوگا جس حال میں کہ میری بیوی بانجھ ہے اور میں بڑھاپے کی انتہا کو پہنچ گیا ہوں
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : قال رب انی یکون لی غلم۔ یہ انکار کے معنی میں نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کی خبر دی ہے بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت سے تعجب کی بنا پر ہے کہ وہ بانجھ عورت اور بوڑے آدمی سے بچہ پیدا کرے گا۔ بعض علماء نے اس کے علاوہ بھی اقوال کہے ہیں جن کا بیان سورة آل عمران میں ہوچکا ہے۔ وقد بلغت من الکبیر عتیا۔ یعنی بڑھاپے، خشکی کی انتہا کو پہنچ چکا ہوں ان کی مثل العسی ہے۔ اصمعی نے کہا : عسا الشیء یعسور عسوا و عساء کا معنی ہے خشک ہونا اور سخت ہونا۔ و قد عسا الشیخ یعسو عسیا۔ اس کا معنی ہے پیٹھ پھیرنا حد سے بڑھنا جیسے عتا ہے۔ کہا جاتا ہے : عتا الشیخ یعتو عتیا و عتیا۔ اس کا معنی ہے وہ حد سے بڑھ گیا، پیٹھ پھیر گیا۔ عتوت یا فلان تو تو عتوا و عتیا۔ اس کی اصل عتو ہے کیونکہ یہ وادی ہے پھر واو کو یاء سے بدلا گیا ہے کیونکہ وہ اس سے زیادہ خفیف اور تمام آیات یاء پر ختم ہو رہی ہیں اور جنہوں نے عتیا کہا ہے انہوں نے کسرہ اور یاء کے ساتھ ضمہ کو ناپسند کیا ہے۔ شاعر نے کہا : انما یعذر الولید ولا یع ذر من کان فی الزمان عتیا حضرت ابن عباس ؓ نے عیسا پڑھا ہے۔ اسی طرح ابی کے مصحف میں ہے۔ یحییٰ بن و ثاب، حمزہ، کسائی اور حفص نے عتیا عین کے کسرہ کے ساتھ پڑھا ہے۔ اسی طرح جثیا اور صلیا ہیں۔ جہاں بھی آئے ہیں۔ حفص نے ب کیا، کو ضمہ کے ساتھ پڑھا ہے اسی طرح باقی قراء نے تمام میں ضمہ کے ساتھ پڑھا ہے۔ یہ دونوں لغتیں ہیں۔ بعض علماء نے فرمایا : عتیا قسیا کے معنی میں ہے، کہا جاتا ہے : ملک عات جب بادشاہ سخت دل ہو۔
Top