Urwatul-Wusqaa - Maryam : 8
قَالَ رَبِّ اَنّٰى یَكُوْنُ لِیْ غُلٰمٌ وَّ كَانَتِ امْرَاَتِیْ عَاقِرًا وَّ قَدْ بَلَغْتُ مِنَ الْكِبَرِ عِتِیًّا
قَالَ : اس نے کہا رَبِّ : اے میرے رب اَنّٰى : کیسے يَكُوْنُ : ہوگا وہ لِيْ غُلٰمٌ : میرے لیے۔ میرا۔ لڑکا وَّكَانَتِ : جبکہ وہ ہے امْرَاَتِيْ : میری بیوی عَاقِرًا : بانجھ وَّقَدْ بَلَغْتُ : اور میں پہنچ چکا ہوں مِنَ : سے۔ کی الْكِبَرِ : بڑھاپا عِتِيًّا : انتہائی حد
زکریا (علیہ السلام) نے کہا اے پروردگار ! میرے ہاں لڑکا کیسے ہوسکتا ہے ، میری بیوی تو بانجھ ہوچکی اور میرا بڑھاپا دور تک پہنچ گیا
قبولیت دعا پر زکریا (علیہ السلام) کا استعجاب کہ اب بیٹا کیسے ؟ : 8۔ آپ سورة آل عمران میں پڑھ چکے ہیں کہ زکریا (علیہ السلام) کی یہ دعا اس وقت پوری ہوئی جب انہوں نے سیدہ مریم (علیہ السلام) سے ایک سوال کیا تھا کہ (آیت) ” یمریم انی لک ھذا) اے مریم ! یہ چیزیں تجھے کہاں سے مل گئیں ؟ اور سیدہ مریم (علیہ السلام) نے جواب دیا تھا (آیت) ” ھو من عنداللہ “۔ کہ وہ مجھے اللہ سے ملی ہیں اس کے بعد کتنا وقت گزر گیا کہ سیدہ مریم (علیہ السلام) عالم شباب کو پہنچ گئیں اور زکریا (علیہ السلام) نے ان کو اپنی کفالت سے نکال کر ایک دوسری کفالت میں دے دیا ، ادھر زکریا (علیہ السلام) کی دعا قبول ہونے کی بشارت دی گئی تو اس وقت تک حالات کا تقاضا مزید یاس کو پہنچ چکا تھا اس لئے بشارت سنتے ہیں زکریا (علیہ السلام) کی زبان سے نکلا (آیت) ” رب انی یکون لی غلام “۔ اے پروردگار اب میرے ہاں لڑکا ! کیسے ؟ (آیت) ” کانت امراتی عاقرا “۔ اب تو میری بیوی بہت بانجھ ہوچکی (آیت) ” وقد بلغت من الکبر عتیا “۔ اور میرا بڑھاپا بھی دور تک پہنچ چکا ، زکریا (علیہ السلام) کے استعجاب سے واضح ہو رہا ہے کہ ان کی دعا کو ایک خاصا وقت گزر چکا تھا اور اسی طرح سیدہ مریم زکریا (علیہ السلام) بھی دوسری کفالت میں جانے کے بعد اس کفالت کے مقصد سے مایوسی کی حالت کو پہنچ چکی تھیں گویا کم وبیش دعا کئے ہوئے آٹھ دس سال کا عرصہ یقینا گزر چکا تھا انہوں نے دعا کے وقت بھی اپنے بڑھاپے کا ذکر کیا تھا اور اب تو یقینا بڑھاپا مزید زیادہ ہوچکا تھا اور بیوی کا بانجھ پن بھی بالکل واضح تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے دوسری جگہ اس کی وضاحت فرما دی کہ (آیت) ” واصلحنا لہ زوجہ “۔ کہ ہم نے اس کے لئے اس کی بیوی کی اصلاح کردی اور اس اصلاح کا یقین یہی تھا کہ وہ بحمد للہ اب حاملہ ہوگئی ۔
Top