Fi-Zilal-al-Quran - Ash-Shu'araa : 90
وَ اُزْلِفَتِ الْجَنَّةُ لِلْمُتَّقِیْنَۙ
وَاُزْلِفَتِ : اور نزدیک کردی جائے گی الْجَنَّةُ : جنت لِلْمُتَّقِيْنَ : پرہیزگاروں کے لیے
”(اس روز) پرہیز گاروں کیق ریب لے آئی جائے گی
وازلفت ……من المومنین (98) جنت کو ایسے لوگوں کے بالکل قریب کر دیاج ائے گا جو خدا کے عذاب سے ڈرتے تھے اور جہنم پرت بھی پردہ اٹھا دیا جائے گا بہکے ہوئے سرکش گمراہوں کے لئے بالکل صاف صاف نظر آئے گی ، وہ لوگ جنہوں نے راستہ گم کردیا تھا اور اس دن کو جھٹلاتے تھے۔ اب وہ اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ یہاں اب ان پر لعنت و ملامت ہوگی اور قبل اس کے کہ انہیں اس میں اوپر نیچے گرا دیا جائے۔ ان سے پوچھا جائے گا کہ یہ لوگ جن معبودوں کی بندگی کرتے تھے ، وہ کہاں ہیں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے قصے کی مناسبت سے یہاں یہ سوال لایا گیا ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی قوم کے ساتھ ایسا ہی مکالمہ کیا تھا کہ آیا یہ بت سنتے بھی ہیں یا نفع و نقصان ہی دے سکتے ہیں۔ اب قیامت میں ان سے کہا جائے گا۔ اینما کنتم تعبدون (26 : 92) من دون اللہ (26 : 93) ” کہ اللہ کے سوا تم جن کی پوجا کرتے تھے وہ کہاں ہیں۔ “ ھل ینصرونکم او ینتصرون (26 : 93) ” کیا وہ تمہارے کچھ مدد کرسکتے ہیں یا اپنا بچائو کرسکتے ہیں۔ “ اس کے بعد ان کا کوئی جواب سامنے نہیں آتا نہ ان کے جواب کا انتظار کیا جاتا ہے۔ یہاں تو محض سوال کرنا ہی مطلوب تھا ، صرف سوال ہی سے سرکوبی اور ملامت مطلوب تھی۔ فکبکبوا فیھا ھم والغاون (26 : 93) وجنود ابلیس اجمعون (26 : 95) ” پھر وہ معبود ، یہ بہکے ہوئے لوگ اور ابلیس کے لشکر سب کے سب اس میں اوپرتلے دھکیل دیئے جائیں گے۔ ‘ لفظ کمبکبوا کے تلفظ ہی سے اور اس کی صوتی شوکت سے ہی یہ تاثر ملتا ہے کس طرح انہیں دفع کیا جاتا ہے ، کس طرح جہنم کے دھانے سے نیچے بےرحمی کے ساتھ گرایا جاتا ہے ، بغیر کسی ترتیب اور رعایت کے یہ لوگ اوپر تلے کرتے ہیں اور اس پورے عمل سے ایک کبکبہ اور ایک غلفلہ بلند ہوتا ہے۔ جس طرح دریا کا کوئی بلند کنارہ گرتا ہے اور اس کے کرنے کی ڈوبی ہوئی آواز بلند ہوتی ہے۔ کبکبوا ایسا ہی لفظ ہے جس کے تلفظ ہی سے مفہوم ذہن کی طرف دوڑتا ہے۔ یہ چونکہ گمراہ اور سرکش تھے اس لئے ان کے ساتھ سب سرکش گرائے گئے اور شیطان کے لشکر کے لشکر لائے جاتے ہیں اور گرائے جاتے ہیں اور ان کے گرنے سے کبکبہ اور غلغلہ بلند ہوتا ہے۔ یہاں مخصوص مجرمین کو پہلے خصوصیت کے ساتھ گرایا جائے اور بعد میں عام گرانی شروع ہوگی۔ اب یہ لوگ جہنم میں پڑے ہیں مگر مکالمہ بھی سنائی دیتا ہے۔ یہ اپنے بتوں اور الموں کے بارے میں اب یوں تبصرے کرتے ہیں۔ تاللہ ان کنا لفی ضلل مبین (26 : 98) اذنسوبکم برب العلمین (26 : 98) ” یہ بہکے ہوئے لوگ ان مبعودوں سے کہیں گے خدا کی قسم ہم تو تصریح گمرایہ میں مبتلا تھے جبکہ تم کو رب العالمین کی برابری کا درجہ دے رہے تھے۔ “ تمہاری عبادت بھی رب العالمین کی عبادت کی طرح کرتے تھے۔ یا تو رب العالمین کے ساتھ تمہاری عبادت کرتے تھے یا اس سے الگ۔ اب تو یہ لوگ جہنم میں یہ بات کہہ رہے ہیں لیکن اس کا فائدہ کیا ہے ؟ یہ تو سب ذمہ داری ان لوگوں پر ڈال رہے ہیں جنہوں نے ان کو گمراہ کیا تھا۔ جنہوں نے ان کو گمراہ کیا اور راہ راست کی طرف آنے سے روک دیا لیکن جب یہ جہنم میں قرار پکڑیں گے تو ہوش آئے گا کہ اب تو وقت گزر گیا ہے ۔ اور یہ واویلا بعد از وقت ہے۔ اب اگر ہم ذمہ داریاں تقسیم بھی کردیں تو فائدہ کیا ہوگا۔ فما لنا من شافعین (26 : 100) ولا صدیق حمیم (26 : 101) ” اب نہ ہمارا کوئی سفارشی ہے اور نہ کوئی جگری دوست۔ “ اب نہ الہ ہیں جو سفارش کریں۔ نہ دوست ہیں جو کام آئیں۔ اگر سفارش نہیں ہے تو کیا ہم دنیا کی طرف لوٹ نہیں سکتے کہ وہاں دوبارہ جا کر درست رویہ اختیار کریں۔ فلو ان لنا کرہ فنکون من المومنین (26 : 102) ” کاش ہمیں ایک دفعہ پھر پلٹنے کا موقعہ مل جائے تو ہم مومن ہوں “۔ مگر یہ تو تمناہی تمنا ہوگی۔ نہ واپسی ہوگی ، نہ سفارش ہوگی۔ یہ ہوگا یوم الدین۔ اب آخری تبصرہ !
Top