Fi-Zilal-al-Quran - Al-A'raaf : 19
وَ یٰۤاٰدَمُ اسْكُنْ اَنْتَ وَ زَوْجُكَ الْجَنَّةَ فَكُلَا مِنْ حَیْثُ شِئْتُمَا وَ لَا تَقْرَبَا هٰذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُوْنَا مِنَ الظّٰلِمِیْنَ
وَيٰٓاٰدَمُ : اور اے آدم اسْكُنْ : رہو اَنْتَ : تو وَزَوْجُكَ : اور تیری بیوی الْجَنَّةَ : جنت فَكُلَا : تم دونوں کھاؤ مِنْ حَيْثُ : جہاں سے شِئْتُمَا : تم چاہو وَلَا تَقْرَبَا : اور نہ قریب جانا هٰذِهِ : اس الشَّجَرَةَ : درخت فَتَكُوْنَا : پس ہوجاؤ گے مِنَ : سے الظّٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع)
اور اے آدم ‘ تو اور تیری بیوی دونوں اس جنت میں رہو جہاں جس چیز کو تمہارا جی چاہے کھاؤ مگر اس درخت کے پاس نہ پھٹکنا ورنہ ظالموں میں سے ہوجاؤ گے ۔
آیت ” نمبر 19۔ قرآن کریم نے اس درخت کا نام نہیں لیا کیونکہ درخت کا نام لینے سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ اصل بات یہ تھی کہ انہیں صرف منع کرنا تھا ۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں تمام حلال چیزوں کے استعمال کی اجازت دے دی تھی اور ممنوعات کے استعمال سے روک دیا تھا ۔ ممنوعات کی حد اس لئے ضروری تھی تاکہ انسان کو معلوم ہوجائے کہ وہ اس سے آگے نہیں جاسکتا اور اس کو رادہ واختیار کی جو آزادی دی گئی ہے اس کو استعمال کرکے وہ اپنی خواہشات اور میلانات پر کنٹرول کرنا سیکھے ۔ اور خواہشات اور میلانات پر برتری حاصل کرے ۔ وہ حیوانات کی طرح خواہشات کا غلام نہ ہو بلکہ خواہشات کا حاکم ہو ۔ کیونکہ ایک انسان اور حیوان میں فرق ہی یہ ہے کہ انسان خواہشات پر قابو رکھتا ہے اور حیوان خواہشات پر کوئی کنٹرول نہیں رکھتا ۔ اب ابلیس اپنا وہ کام شروع کرتا ہے جس کے لئے اس نے اپنے آپ کو وقف کرلیا ہے ۔ یہ انسان جسے اللہ نے یہ اعزاز دیا اور جس کی تخلیق کا اعلان عالم بالا کی اس عظیم تقریب میں کیا گیا ‘ جسے تمام فرشتوں نے سجدہ ریز ہو کر سلامی دی اور جس کے سامنے سجدہ ریز نہ ہونے کی بنا پر ابلیس کو عالم بالا سے خارج البلد کیا گیا ۔ یہ مخلوق اپنے اندر دو صلاحیتیں رکھتی ہے ۔ یہ دونوں جانب جاسکتی ہے اور اس مخلوق میں بعض کمزور یونٹ بھی ہیں جن سے اسے پکڑا جاسکتا ہے الا یہ کہ وہ امر الہی پر کاربند ہوجائے ۔ ان کمزور مقامات سے اس پر حملہ کیا جاسکتا ہے اور اس پر قابو پایا جاسکتا ہے ۔ ان کمزور نکات میں سے ایک ہے شہوات نفسانیہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ذرا دیکھئے شیطان ان نکات سے کس طرح انسان پر قابو پاتا ہے ۔
Top