Fi-Zilal-al-Quran - Al-A'raaf : 31
یٰبَنِیْۤ اٰدَمَ خُذُوْا زِیْنَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَّ كُلُوْا وَ اشْرَبُوْا وَ لَا تُسْرِفُوْا١ۚ اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَ۠   ۧ
يٰبَنِيْٓ اٰدَمَ : اے اولادِ قوم خُذُوْا : لے لو (اختیار کرلو) زِيْنَتَكُمْ : اپنی زینت عِنْدَ : قیب (وقت) كُلِّ مَسْجِدٍ : ہر مسجد (نماز) وَّكُلُوْا : اور کھاؤ وَاشْرَبُوْا : اور پیو وَلَا تُسْرِفُوْا : اور بےجا خرچ نہ کرو اِنَّهٗ : بیشک وہ لَا يُحِبُّ : دوست نہیں رکھتا الْمُسْرِفِيْنَ : فضول خرچ (جمع)
اے بنی آدم ‘ ہر عبادت کے موقع پر اپنی زینت سے آراستہ رہو اور کھاؤ پیو اور حد سے تجاوز نہ کرو ‘ اللہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔
آیت ” نمبر 31 تا 33۔ یہ اسلامی نظریہ حیات کے اساسی عقائد پر تاکید مزید ہے۔ زور اس بات پر دیا جارہا ہے کہ عرب جاہلیت کے مقابلے میں اسلام کی اساس ان امور پر ہے ۔ یہ نظریہ پوری انسانیت کے لئے تجویز کیا گیا ہے اور اسے اس بحث کے ضمن میں لایا گیا ہے جو اس کرہ ارض پوری انسانیت کی تخلیق کے قصے سے متعلق ہے۔ ان حقائق میں سے اہم ترین حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی اس مخلوق ‘ انسان کے لئے جن چیزوں کو پیدا کیا ہے ‘ اس میں سے بعض چیزوں کو خود بعض انسان حرام قرار دیتے ہیں اور کام بھی وہ اذن الہی کے بغیر کرتے ہیں اور اللہ کے قانون میں سے کسی سند کے بغیر جبکہ ان کا یہ فعل یعنی یہ تحریم وتحلیل ایک شرکیہ فعل ہے ۔ پھر یہ اللہ تعالیٰ پر ایک افتراء بھی ہے اور ان کا ذاتی زعم بھی ۔ چناچہ اللہ ان کو پکارتے ہیں کہ اللہ نے تمہاری زیب وزینت کے لئے جو سامان پیدا کیا ہے اس سے آراستہ رہو۔ عربی میں اسے ” ریش “ کہتے ہیں خصوصا عبادت کے وقت اور عبادات میں طواف بھی شامل ہے ‘ جسے وہ برہنہ حالت میں ادا کرتے تھے ۔ وہ ایسے لباسوں کو حرام قرار دیتے تھے جنہیں اللہ نے حرام قرار نہیں دیا بلکہ وہ بندوں کے لئے انعام واکرام تھا ۔ لہذا ان کے لئے بہتر ہے کہ وہ اللہ کے فراہم کردہ زیب وزینت میں اس کی عبادت کریں ‘ نہ کہ ننگے ہو کر اور نہ ہی فحاشی کرتے ہوئے ۔ آیت ” یَا بَنِیْ آدَمَ خُذُواْ زِیْنَتَکُمْ “۔ (7 : 31) ” اے بنی آدم ‘ ہر عبادت کے موقع پر اپنی زینت سے آراستہ رہو۔ “ اور اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ پوری انسانیت کو یہ بھی حکم دیتے ہیں کہ یہاں پاکیزہ چیزوں کو استعمال کرو اور کھانے پینے کی قسم کی تمام چیزوں کو کام میں لاؤ ۔ لیکن اسراف نہ کرو ‘ اور دوسرے یہ کہ پاکیزہ چیزیں استعمال میں لاؤ ۔ آیت ” وکُلُواْ وَاشْرَبُواْ وَلاَ تُسْرِفُواْ إِنَّہُ لاَ یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَ (31) ” اور کھاؤ پیو اور حد سے تجاوز نہ کرو ‘ اللہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ “ احادیت میں وارد ہے کہ جس طرح وہ لوگ بعض اوقات لباس کو حرام قرار دیتے تھے ‘ اسی طرح وہ بعض کپڑوں کو پہننا بھی حرام سمجھتے تھے ۔ اور یہ باتیں قریش نے اپنی طرف سے گھڑ لی تھیں ۔ صحیح مسلم مٰن ہشام ابن عروہ کی روایت ہے کہ عرب بیت اللہ کا طواف عریانی کی حالت میں کرتے تھے ماسوائے قریش اور ان کی اولاد کے ۔ یہ لوگ ننگے ہو کر طواف کرتے تھے ‘ الا یہ کہ قریش انہیں کپڑے دیں ۔ چناچہ قریش کے مرد مردوں کو کپڑے دیتے تھے اور عورتیں عورتوں کو ‘ نیز قریش مزدلفہ سے آگے نہیں جاتے تھے جبکہ دوسرے لوگ عرفات تک جاتے تھے ۔ قریش یہ کہتے تھے کہ ہم حرم والے ہیں اس لئے کسی عرب کو یہ جائز نہیں ہے کہ وہ ہمارے کپڑوں کے سوا کسی اور کپڑے میں طواف کرے ۔ اسی طرح جب کوئی عرب حرم میں داخل ہو تو وہ سرف اہل قریش کا کھانا کھا سکتا ہے اس لئے کہ اگر کسی عرب کا مکہ میں دوست نہ ہوتا جو اسے کپڑے عاریتا دے سکتا ‘ اور یا اگر اسے یہ سہولت حاصل نہ ہوتی کہ وہ کرایہ کے کپڑے خرید سکتا تو اس کے لئے دو راستے کھلے ہوئے تھے ‘ ایک یہ کہ وہ عریانی کی حالت میں طواف کرے اور یا کپڑوں میں طواف کرکے کپڑے پھینک دے ۔ ایسے کپڑوں کو لقی کہا جاتا تھا اور پھر انہیں کوئی بھی ہاتھ نہ لگاتا ۔ “ قرطبی ‘ احکام القرآن میں لکھتے ہیں : کہا جاتا ہے کہ عرب ایمان حج میں مرغن غذا نہ کھاتے تھے اور تھوڑا بہت کھاتے تھے اور برہنہ حالت میں طواف کرتے تھے ۔ انہیں کہا گیا ” ہر عبادت کے وقت اپنے آپ کو زینت سے آراستہ کرو اور کھاؤ پیو اور حد سے تجاوز نہ کرو۔ “ یعنی جو چیزیں تم پر حرام نہیں قرار دی گئی ہیں ان کو حرام کرنے میں اسراف نہ کرو۔ اس لئے کہ اسراف کے معنی ہیں حد سے تجاوز کرنا اور حد سے تجاوز یہ بھی ہے کہ حلال چیزوں کو حرام قرار دیا جائے ۔ جائز کرنے میں حدود توڑنا اور حرام کرنے میں حدود سے آگے بڑھنا دونوں تجاوزات میں آتے ہیں۔ یہاں قرآن کریم صرف اس بات پر اکتفاء نہیں کرتا کہ ہر عبادت گاہ میں صرف لباس زیب تن کر کے جاؤ اور اللہ کے پیدا کردہ پاکیزہ رزق سے فائدہ اٹھاؤ اور کھاؤ پیو ‘ بلکہ بطور استکار ان لوگوں سے پوچھتا ہے کہ اللہ نے لوگوں کے لئے زیب وزینت کی جو چیزیں پیدا کی ہیں انہیں کس نے حرام قرار دیا ہے اور جو پاکیزہ خوراک پیدا کی ہے اسے کس نے حرام قرار دیا ہے ۔ اس لئے کہ لوگوں کی جانب سے از خود رزق کو حلال قرار دینا اور اپنے اوپر زیب وزینت کو حرام قرار دینا کس کے اذن سے ہے ‘ کیونکہ حلال و حرام کا تعین من جانب شارع ہوتا ہے ۔ آیت ” قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِیْنَۃَ اللّہِ الَّتِیَ أَخْرَجَ لِعِبَادِہِ وَالْطَّیِّبَاتِ مِنَ الرِّزْقِ “۔ (7 : 32) ” اے نبی ﷺ ان سے کہو کس نے اللہ کی اس زینت کو حرام کردیا جسے اللہ نے اپنے بندوں کیلئے نکالا تھا اور کس نے خدا کی بخشی ہوئی پاک چیزیں ممنوع کردیں ؟ “ اس تنبیہ آمیز سوال کے بعد یہ قرار دیا جاتا ہے کہ یہ لباس اور یہ پاکیزہ رزق اہل ایمان کا حق ہے ‘ اس لئے کہ وہ مومن ہیں اور وہ اس رب پر ایمان لانے والے ہیں جس نے ان چیزوں کو پیدا کیا ہے ‘ اگرچہ ان چیزوں میں غیر مومن اس دنیا کی حد تک انکے ساتھ شریک ہیں لیکن قیامت میں اور اگلے جہاں میں تو یہ چیزیں خالصتا مومنین کے لئے ہیں اور وہاں کفار کا کوئی حصہ نہیں ہوگا۔ آیت ” قُلْ ہِیْ لِلَّذِیْنَ آمَنُواْ فِیْ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا خَالِصَۃً یَوْمَ الْقِیَامَۃِ “ (7 : 32) ” کہو ‘ یہ ساری چیزیں دنیا کی زندگی میں بھی ایمان لانے والوں کے لئے ہیں ‘ اور قیامت کے روز تو خالصتا انہیں کے لئے ہوں گی ۔ “ اس لئے اگر صورت حال یہ ہے تو یہ حرام کیسے ہوسکتی ہیں ؟ ایک چیز قیامت میں تو مسلمانوں کے لئے خاص ہو اور یہاں پر حرام ہو ۔
Top