Asrar-ut-Tanzil - An-Nisaa : 104
وَ لَا تَهِنُوْا فِی ابْتِغَآءِ الْقَوْمِ١ؕ اِنْ تَكُوْنُوْا تَاْلَمُوْنَ فَاِنَّهُمْ یَاْلَمُوْنَ كَمَا تَاْلَمُوْنَ١ۚ وَ تَرْجُوْنَ مِنَ اللّٰهِ مَا لَا یَرْجُوْنَ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ عَلِیْمًا حَكِیْمًا۠
وَلَا تَهِنُوْا : اور ہمت نہ ہارو فِي : میں ابْتِغَآءِ : پیچھا کرنے الْقَوْمِ : قوم (کفار) اِنْ : اگر تَكُوْنُوْا تَاْ لَمُوْنَ : تمہیں دکھ پہنچتا ہے فَاِنَّھُمْ : تو بیشک انہیں يَاْ لَمُوْنَ : دکھ پہنچتا ہے كَمَا تَاْ لَمُوْنَ : جیسے تمہیں دکھ پہنچتا ہے وَتَرْجُوْنَ : اور تم امید رکھتے ہو مِنَ : سے اللّٰهِ : اللہ مَا لَا : جو نہیں يَرْجُوْنَ : وہ امید رکھتے وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ عَلِيْمًا : جاننے والا حَكِيْمًا : حکمت والا
اور کفار کے پیچھا کرنے میں سستی نہ کرنا اگر تم بےآرام ہوتے ہو تو جس طرح تم بےآرام ہوتے ہو تو اسی طرح وہ بھی بےآرام ہوتے ہیں اور تم خدا سے ایسی ایسی امیدیں رکھتے ہو جو وہ نہیں رکھ سکتے اور خدا سب کچھ جانتا (اور) بڑے حکمت والا ہے
قول باری ہے ( ولا تھنوا فی اتبغاء القوم ان تکونوا تالمون فانھم یالمون کما تالمون۔ اس گروہ کے تعاقت میں کمزوری نہ دکھائو اگر تم تکلیف اٹھا رہے ہو تو تمہاری طرح وہ بھی تکلیف اٹھا رہے ہیں ( تا آخری آیت۔ اس قول باری میں جہاد پر ابھارا گی ہے۔ اس میں جہاد کرنے کا حکم ہے اور مشرکین کا تعاقب کرنے اور ان کے ساتھ پنجہ آزمائی میں کمزوری اور سستی دکھانے سے منع کیا گیا ہے اس لیے کہ ابتغاء کے معنی طلب اور تعاقب کے ہیں۔ جب آپ کسی چیز کی طلب میں اس کا پیچھا کریں تو اس وقت آپ ” بغیت و ابتغیت کا فقرہ استعمال کریں گے۔ وہن دل کی اس کمزوری اور بزدلی کو کہتے ہیں جو انسان دشمن کا مقابلہ کرتے وقت محسوس کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے قول ( ان تکونوا تالمون فانھم یالمون کما تالمون) کے ذریعے مسلمانوں کو اپنے دلوں سے کمزوری اور بزدلی دور کرنے ، جرأت پیدا کرنے اور دشمن کے خلاف پیش قدمی کرنے کی دعوت و ترغیب دی۔ اور انہیں یہ بتایا کہ جہاں تک قتال کے سلسلے میں تکلیفین برداشت کرنے کا تعلق ہے اس میں تم اکیلے نہیں ہو بلکہ انہیں بھی یہی تکلیفیں برداشت کرنا پڑتی ہیں لیکن تمہیں ان پر اییک بات میں فضیلت حاصل ہے وہ یہ کہ تمہیں اللہ کی ذات سے جس ثواب و اجر کی امید ہے مشرکین اس کی امید نہیں کرسکتے۔ اس لیے تمہیں ان کی بہ نسبت زخموں کی تکلیفوں پر زیادہ صبر کرنا چاہیے اور زیادہ جرأت کا مظاہرہ کرنا چاہیے کیونکہ انہیں یہ فضیلت حاصل نہیں اور نہ ہی انہیں کسی اجرو ثواب کی توقع ہے۔ قول باری ہے ( وترجون من اللہ مالا یرجون اور تم اللہ سے اس چیز کے امیدوار ہو جس کے وہ امیدوار نہیں ہیں) اس کی تفسیر دو طرح سے کی گئی ہے۔ ایک تو یہ کہ جب تم اللہ کے دین کی نصرت کرو گے اور اللہ کی طرف سے بھی تمہاری مدد اور نصرت کا وعدہ ہے۔ اور دوسری یہ کہ تمہیں آخرت کے ثواب اور جنت کی نعمتوں کے حصول کی امید ہے۔ اس لیے قتال کی تکالیف پر صبر کرنے اور زخموں کی اذیتیں برداشت کرنے کے لیے مسلمانوں کے اسباب و دواعی کافروں کے اسباب و دواعی سے بڑھ کر ہیں۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ اللہ کے جس ثواب کی تمہیں آرزو اور تمنا ہے اس کی انہیں آرزو اور تمنا نہیں ہے۔ حسن، قتادہ اور ابن جریج سے یہ تفسیر منقول ہے۔ بعض دوسرے حضرات کا قول ہے کہ تمہیں اللہ کا جو خوف ہے وہ انہیں نہیں ہے۔ جس طرح ایک اور مقام پر ارشاد ہے ( مالکم لا ترجون للہ وقارا ۔ تمہیں کیا ہوا کہ تم اللہ کی عظمت کے قائل نہیں ہو) یعنی تمہیں اللہ کی عظمت کا خوف نہیں ہے۔ بعض اہل لغت کا قول ہے کہ رجاء کا لفظ خوف کے معنوں میں استعمال نہیں ہوتا۔ البتہ نفی کے ساتھ اس کا یہ استعمال درست ہے۔ لیکن یہ ایسی بات ہے جو کسی دلالت کے بغیر قابل قبول نہیں ہوسکتی۔
Top