Tafseer-e-Haqqani - Al-Ghaafir : 57
لَخَلْقُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ اَكْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ
لَخَلْقُ : یقیناً پیدا کرنا السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَالْاَرْضِ : اور زمین اَكْبَرُ مِنْ : زیادہ بڑا ۔ سے خَلْقِ النَّاسِ : لوگوں کو پیدا کرنا وَلٰكِنَّ : اور لیکن اَكْثَرَ النَّاسِ : اکثر لوگ لَا يَعْلَمُوْنَ : سمجھتے نہیں
البتہ آسمانوں اور زمین کا بنانا آدمیوں کے بنانے سے بڑھ کر ہے، لیکن اکثر لوگ جانتے ہی نہیں
تفسیر : ترغیب و ترہیب کے بعد پھر دلائلِ توحید و اثبات حشر کی طرف رجوع کرتا ہے۔ فقال لخلق السمٰوٰتالخ کہ یہ منکرین حشر اس بات سے کیا تعجب کرتے ہیں کہ قیامت کے روز خدا تعالیٰ بندوں کو باردگر پیدا کرے گا اور اس بات کو کیا محال جانتے ہیں ؟ کس لیے کہ اس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے جو انسانوں کے پیدا کرنے سے بڑا کام ہے۔ آسمانوں کی وسعت اور ان میں ایسے ایسے بڑے اجرام نورانی یعنی آفتاب و مہتاب اور ستارے کہ جو زمین سے ہزاروں حصہ بڑے ہیں، عاقل کے لیے اس کی قدرت کاملہ پر دلیل میں ہیں۔ فیثا غورث حکیم اور اس کے مبتعین جو آسمانوں کا وجود ہمارے خیال کے موافق تسلیم نہیں کرتے اور آسمان فضاء کو کہتے ہیں۔ ان کے نزدیک اور زیادہ اس کی قدرت کاملہ کا ثبوت ہے۔ وہ کہتے ہیں زمین بھی ایک چھوٹا سا تارا ہے جس میں یہ کچھ کائنات ہے اور دیگر ستاروں کی طرح آفتاب کے گرد لاکھوں کوس کے فاصلہ سے گھومتی ہے، اسی طرح زہرہ دمشتری وغیرہ ستارے اس سے بھی بڑے ہیں اور وہ بھی دورہ کرتے ہیں اور آفتاب بھی ایک بڑا جرم ہے، وہ بھی دورہ کرتا ہے جو ہم کو نہایت چھوٹے چھوٹے تارے رات کو دکھائی دیتے ہیں۔ وہ بعد کی وجہ سے چھوٹے دکھائی دیتے ہیں، ورنہ وہ زمین سے لاکھوں حصے بڑے ہیں، پھر حکمائِ حال نے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ ان میں بھی انسان کی طرح سے حیوانات بستے ہیں اور وہاں روشنی آفتاب یا کسی اور ستارے سے پہنچتی ہے۔ آفتاب کے رہنے والوں کو کسی اور نیر سے آفتاب و ماہتاب کی طرح سے روشنی پہنچتی ہے، ان میں رہنے والوں کو زمین بھی ایک چھوٹا سا تارا معلوم ہوتا ہے اور ان لاکھوں کروڑوں ستاروں میں کہ جن میں سے ایک زمین بھی ہے۔ بعض آفتاب سے منور ہیں، بعض کسی اور سے پھر ان کی نورانیت اور ظلمت بھی مختلف ہے، پھر اس کی قدرت کو دیکھو کہ یہ سب ایک فضائِ غیر محدود میں کس انداز سے دورہ کررہے ہیں۔ آپس میں ٹکرا ٹکرا نہیں جاتے نہ ان کے انتظام میں فرق آتا ہے۔ پس ایسے حکیم و قدیر کے نزدیک آدمی کا باردگر پیدا کرنا کیا مشکل ہے ؟ مگر اس بات کو آنکھوں والے یعنی علم و عقل والے جانتے ہیں نہ اندھے۔ اس لیے فرماتا ہے وما یستوی الاعمیالخ اندھا اور آنکھوں والا یعنی جاہل و عالم برابر نہیں اور نہ مومن نیک کام کرنے والا اور بدکار برابر ہوسکتے ہیں، لیکن اے لوگو ! تم کم سمجھتے ہو، اس کے بعد پھر قیامت کے برپا ہونے کی خبر دیتا ہے۔ ان الساعۃ لاتیۃ الخ کہ قیامت ضرور آوے گی اس میں کچھ بھی شبہ نہیں یعنی یقینا آوے گی لیکن اکثر لوگ مانتے نہیں۔ 1 ؎ قیامت دار آخرت میں جانے اور سرور ابدی پانے کا وسیلہ ہے، اس لیے جو باتیں اس عالم میں نافع ہیں، ان کی تعلیم دیتا ہے۔ فقال و قال ربکم الخ تمہارا رب فرماتا ہے مجھے پکارو میری عبادت کرو میں تم سے غائب نہیں ہوں، میں تمہارا کہنا اور پکارنا سنتا ہوں۔ عبادت قبول کرتا ہوں جو میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں وہ ذلیل ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے۔ ا ؎ بعض نے اسی بات سے یہ خیال پیدا کیا ہے کہ ان اجرام میں سے جنت بھی ایک ایسا ہی جرم سماوی ہے جو بعد کی وجہ سے نظر نہیں آتا۔ وہاں آرام و آسائش دائمی ہے، کیونکہ سب اجرام کے مادے یکساں نہیں، وہ سب میں زیادہ عافیت اور خلو دوسرور کی جگہ ہے۔ ارواح بشر یہ جو نیک ہیں مرنے کے بعد یا قیامت برپا ہونے کے بعد وہاں بھیجی جاتی ہیں اور اس میں آرام سے رہتی ہیں اور جہنم ان میں سے ایک بدتر جرم ہے۔ جو ظلمانی ہے اور زمین سے نیچے ہے وہاں بیشمار تکلیفیں ہیں، مشرکین و کفار و گناہ گاروں کی روحیں وہاں جاکر عذاب میں رہتی ہیں اور جہنم اسی کرئہ ارضی میں رہ جاتا ہے۔ وفیہ مافیہ 12 منہ
Top