Ruh-ul-Quran - Al-Ghaafir : 57
لَخَلْقُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ اَكْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ
لَخَلْقُ : یقیناً پیدا کرنا السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَالْاَرْضِ : اور زمین اَكْبَرُ مِنْ : زیادہ بڑا ۔ سے خَلْقِ النَّاسِ : لوگوں کو پیدا کرنا وَلٰكِنَّ : اور لیکن اَكْثَرَ النَّاسِ : اکثر لوگ لَا يَعْلَمُوْنَ : سمجھتے نہیں
آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنا لوگوں کے پیدا کرنے سے زیادہ بڑا کام ہے، لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے
لَخَلْقُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اَکْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ وَلٰـکِنَّ اَکْثَرَالنَّاسِ لاَ یَعْلَمُوْنَ ۔ (المؤمن : 57) (آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنا لوگوں کے پیدا کرنے سے زیادہ بڑا کام ہے، لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔ ) امکانِ آخرت پر دلیل آنحضرت ﷺ لوگوں کو جس دین کی طرف بلاتے تھے اس کے تین بنیادی اجزاء تھے۔ توحید، رسالت اور آخرت۔ قریش اور اہل مکہ کو سب سے زیادہ جو چیز کھٹکتی تھی اور جس چیز کو وہ خلاف عقل قرار دیتے تھے وہ عقیدہ آخرت تھا۔ اس میں عجیب و غریب دلائل اور کٹ حجتیوں سے کام لیتے تھے۔ زیادہ زور اس بات پر تھا کہ بیشمار مخلوق اب تک مرچکی ہے اور دنیا کے گوشے گوشے میں ان کی قبریں بن چکی ہیں، لیکن نہ قبروں کے نشان باقی ہیں، نہ ان کے جسموں کے آثار باقی ہیں۔ ہَوائوں نے ان کے ذرات تک نہ جانے کہاں کہاں بکھیر دیئے۔ اور آخرت کے وقوع پذیر ہونے تک نہ جانے اور کتنی مخلوق پیدا ہوگی اور مرے گی۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں مرے ہوئے لوگوں کو زندہ کردیا جائے جبکہ ان کے نشانات اور آثار تک باقی نہیں۔ اس کے جواب میں پروردگار نے سب سے پہلے ایک ایسی بات ارشاد فرمائی ہے جس کا سمجھنا ایک عام آدمی کے لیے بھی مشکل نہیں۔ اور مزید یہ کہ اس کے سمجھ لینے سے کم از کم ایک بات تو واضح ہوجاتی ہے کہ آخرت کا وقوع محال نہیں، بلکہ ممکن ہے۔ جو بات ارشاد فرمائی وہ یہ ہے کہ تم یہ بتائو کہ آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنا زیادہ بڑی بات ہے یا تمام مرے ہوئے انسانوں کو زندہ کرنا، جبکہ تم تسلیم کرتے ہو کہ آسمانوں اور زمین کو اللہ تعالیٰ ہی نے پیدا کیا ہے اور اس سے مراد پوری کائنات ہے جس میں نہ جانے کتنی اور مخلوقات ہیں، کتنے اور کُرّے ہیں۔ اور پھر اس کائنات کی وسعتوں کا کسی کو اندازہ نہیں۔ انسان سب سے چھوٹے کُرّے کا مکین ہے۔ تو جب اس سے بڑے کُرّے اور بےاندازہ وسعتوں کی حامل کائنات اور بیشمار مخلوقات کو اللہ تعالیٰ پیدا کرچکا ہے اور اسے کوئی مشکل پیش نہیں آئی اور پھر انسانوں کو بھی اسی نے پیدا کیا ہے تو آخر دوبارہ ان کا پیدا کرنا یعنی زندہ کرنا کیوں مشکل ہے۔ غبی سے غبی آدمی بھی اس بات کو سمجھنے میں کوئی دشواری محسوس نہیں کرتا کہ جو ذات بڑے کام کو سر انجام دے سکتی ہے اس کے لیے چھوٹے کام کو پایہـ ٔتکمیل تک پہنچانا کبھی مشکل نہیں ہوتا۔ لیکن کس قدر تعجب کی بات ہے کہ اتنی سامنے کی بات بھی اکثر لوگ نہیں جانتے۔
Top