Tafseer-e-Haqqani - Al-Ghaafir : 69
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ یُجَادِلُوْنَ فِیْۤ اٰیٰتِ اللّٰهِ١ؕ اَنّٰى یُصْرَفُوْنَ٤ۖۛۚ
اَلَمْ تَرَ : کیا نہیں دیکھا تم نے اِلَى : طرف الَّذِيْنَ : جو لوگ يُجَادِلُوْنَ : جھگڑتے ہیں فِيْٓ : میں اٰيٰتِ اللّٰهِ ۭ : اللہ کی آیات اَنّٰى : کہاں يُصْرَفُوْنَ : پھرے جاتے ہیں
کیا آپ نے وہ لوگ نہیں دیکھے جو اللہ کی آیتوں میں جھگڑا مچایا کرتے ہیں، کہاں بہکے چلے جارہے ہیں۔
ترکیب : اذا الاغلالظرف لیعلمون والمراد معنی الاستقبال والسلاسل جمع سلسلۃ معطوف علی الاغلال و الخبرفی اعناقہم او مبتداء خبرہ یسبحون والعائد محذوف ای یسبحون بھا و ھو علی الاول حال و قریٰ بالنصب و یسبحون بفتح الیاء ای یسبحون السلاسل۔ تفسیر : آیات الٰہیہ میں جھگڑا کرنے والوں کی پھر مذمت بیان کی جاتی ہے۔ فقال الم ترالی الذین الخ خدا تعالیٰ تعجب کے طور پر ارشاد فرماتا ہے کہ اے محمد ﷺ ! کیا آپ نے وہ لوگ نہیں دیکھے جو آیات الٰہیہ میں ناحق حجت کیا کرتے ہیں، وہ کہاں بہکے جاتے ہیں ؟ پھر فرماتا ہے وہ کون ہیں۔ الذین کذبوا بالکتابوہ ہیں کہ جنہوں نے کتاب اللہ کو جھٹلایا، عام ہے کہ قرآن مجید ہو یا اگلی کتابیں یا ان میں سے کسی کتاب کا انکار۔ کیا ہو اور رسول جس چیز کو لائے اس کا بھی انکار کیا۔ رسول اللہ ﷺ کی کسی بات کو جھٹلانا کفر ہے۔ خواہ صراحۃً یا کنایۃ۔ پھر آخرت میں جو سزا ان کو ہوگی اس کو بیان کرتا ہے۔ اذا الاغلال الخ ان کے گلوں میں طوق و زنجیر ڈال کر گرم پانی میں گھسیٹا جائے گا۔ پھر آگ میں ڈالے جائیں گے، یعنی طرح طرح سے عذاب ہوگا۔ راغب اصفہانی کہتے ہیں تسلسل الشیء اضطراب اس کے معنی میں حرکت و اضطراب پایا جاتا ہے۔ زنجیر کو بھی اسی لیے سلسلہ کہتے ہیں کہ اس کی کڑیوں میں حرکت ہوتی ہے اور پانی کو بھی بوجہ روانگی کے ماء سلسل کہتے ہیں۔ اغلال جمع غل بمعنی طوق ‘ السحب زور سے کھینچنا اور بادل کو بھی اسی لیے سحاب کہتے ہیں کہ اس کو ہوا دھکیلتے ہوئی لے جاتی ہے۔ حمیم گرم کھولتا ہوا پانی بعض کہتے ہیں، پیپ مراد ہے۔ سجر تنور گرم کرنا اور نہر کو پانی سے بھرنا اس لیے کہتے ہیں، بحر مسجور اے مملوا ماء۔ پھر ان سے سوال ہوگا کہ جن کو تم شریک بناتے تھے وہ کہاں ہیں ؟ جواب دیں گے ضلوا عنا کہ ہم سے کھوئے گئے، ہم کو نظر نہیں آتے، پھر کہیں گے بل لم نکن ندعوا من قبل شیئا کہ ہم تو کسی کو بھی نہیں پکارا کرتے تھے، جس طرح کوئی شخص کچھ برا کام کرے اور سزا کے وقت انکار کرے کہ میں نے تو کچھ بھی نہیں کیا تھا تاکہ سزا نہ ہو۔ فرماتا ہے کذلک یضل اللہ کہ جس طرح اس روز بکیں گے، کئے کام کا انکار کریں گے، اسی طرح دنیا میں اللہ ان کو گمراہ کررہا ہے جو وہ آیات اللہ میں جھگڑتے ہیں یا یہ معنی کہ اس طرح سے ان کو آخرت میں مبہوت و بدحواس کرے گا۔ ان سے وہاں کہا جائے گا ذلکم یہ عذاب تم کو اس لیے ہوا کہ تم دنیا میں گناہوں اور شرک اور طرح طرح کی بدکاری کرکے خوش ہوا کرتے تھے۔ مال و عیال میں مست تھے اور اس لیے بھی کہ تم تکبر کیا کرتے تھے۔ تکبر سے اہل اللہ کی بات نہیں سنتے تھے۔ لو اب ادخلوا ابواب جہنم دوزخ کے دروازوں میں گھسو ہمیشہ رہنے کے لیے یہ بری جگہ متکبروں کی ہے۔
Top