Tafseer-e-Haqqani - Al-Haaqqa : 38
فَلَاۤ اُقْسِمُ بِمَا تُبْصِرُوْنَۙ
فَلَآ اُقْسِمُ : پس نہیں میں قسم کھاتا ہوں بِمَا تُبْصِرُوْنَ : ساتھ اس کے جو تم دیکھتے ہو
پھر جس کو تم دیکھتے ہو
ترکیب : فلا اقسم قیل لامزیدۃ اوفلار ولانکارھم البعث ثم اقسم وقیل نافیۃ للقسم کانہ قال لا اقسم علی ان القرآن قول رسول کریم لظہورالامر واستغنائـہ عن التحقیق بالقسم انہ لقول الخ جواب القسم مؤکد بان واللام والا سمیّہ۔ وماھوالخ الجملۃ تاکید لقولہ انہ لقول رسول کریم قلیلا ما زائدۃ للتاکید ولابقول کا ھن عطف علیٰ قولہ بقول شاعر۔ تنزیل خبر متبدء ھو تنزیل تقول قرء الجمہور مبیناً للفاعل والتقول تکلف القول والافتراء والاقاویل جمع اقوال جمع قول کا بابیت جمع ابیات جمع بیت والاقوال المفتراۃ اقاویل تحقیر الھا لاخذنا جواب لوحاجزین وصف لاحد فانہ عام لکونہ نکرۃ واقعۃ فی سیاق النفی۔ حق الیقین من اضافۃ الصفۃ للموصوف ای للیقین الحق وقیل ھو کقولک محض الیقین۔ تفسیر : یہاں تک امور حاقہ کا بیان شواہد اور اخیر حاقہ قیامت کا مفصل بیان تھا کہ اس طرح سے ہوگی اور اس کے بعد نیکوں کی یہ حالت اور بدوں کی یہ صورت ہوگی۔ اس بیان میں دو مسئلہ ثابت کئے گئے، توحید باری تعالیٰ کہ اس کی نافرمانی کی سزا کوئی دوسرا روک نہیں سکتا۔ عادوثمود و نوح (علیہ السلام) کی قوموں پر جو کچھ حوادث آئے، دنیا نے آنکھ سے دیکھے، محفوظ کانوں سے سن کر یاد رکھے۔ یہ اس کی توحید کی پوری دلیل ہے۔ کس لیے کہ اگر کوئی دوسرا بھی اس کا شریک ہوتا جیسا کہ ان لوگوں کا اعتقاد تھا اور اسی لیے وہ اس کی پرستش کرتے تھے تو ایسے مواقع پر ان کی مدد کرتا، عذاب الٰہی کو ٹال دیتا۔ دوسرا مسئلہ معاد کا ‘ قیامت برپا ہوگی اور وہاں یہ ہوگا۔ اس کے بعد اب تیسرے مسئلہ نبوت کو ثابت کرتا ہے جس پر دونوں مسئلوں کی بنیاد ہے۔ کس لیے کہ پچھلے واقعات گو محسوس تھے مگر ان کو جاہل اسباب پر مبنی کرتے تھے۔ اس کے بعد قیامت کا واقعہ ہے جو آنکھوں سے غائب ہے اب زیادہ دارومدار نقل پر رہا ہے اس لیے نقل کا استحکام ضرور ہوا۔ فقال فلا اقسم بماتبصرون ومالاتبصرون کہ میں قسم کھاتا ہوں ان چیزوں کی کہ جن کو تم دیکھتے ہو اور ان چیزوں کی جن کو تم نہیں دیکھتے۔ مفسرین نے اسباب میں متعدد اقوال بیان فرمائے ہیں۔ بعض کہتے ہیں بماتبصرون سے مراد عالم شہادۃ محسوسات ‘ آسمان و زمین وغیرہ اور مالاتبصرون سے عالم روحانیات و عالم جن و ملائکہ۔ اب دونوں کو ملا کر سب چیزیں آگئیں، خالق و مخلوق دنیا و آخرت اجسام و ارواح انس و جن نعما بہ ظاہریہ و باطنیہ۔ بعض کہتے ہیں ماتبصرون سے مراد واقعات گزشتہ کہ جن کے آثار اب تک تمہاری آنکھوں کے سامنے ہیں۔ ومالا تبصرون سے مراد قیامت کا واقعہ جو نظروں سے غائب ہے۔ بعض کہتے ہیں ماتبصرون سے مراد حضرت محمد ﷺ کہ جو کفار کے سامنے تھے اور مالاتبصرون سے مراد جبرئیل (علیہ السلام) جو ان کو دکھائی نہیں دیتے تھے۔ قرآن شریف کے آنے میں یہی دو واسطے ہیں۔ اس لیے ان کی قسم کھا کر جو اللہ کے نزدیک محترم تھے۔ یہ بیان فرماتا ہے انہ لقول رسول کریم۔ بعض مفسرین کہتے ہیں فلا اقسم میں لانفی کے لیے ہے حق سبحانہ ٗ فرماتا ہے کہ مجھے ان چیزوں کی قسم کھانے کی حاجت نہیں کس لیے کہ بات ظاہر ہے وہ کیا کہ انہ لقول الخ کہ یہ قرآن کریم کا قول ہے۔ رسول کریم سے یہاں مراد آنحضرت ﷺ ہیں جن کو کافر شاعر و کاہن کہتے تھے نہ جبرئیل۔ کس لیے کہ ان کی نسبت وہ یہ نہیں کہتے تھے البتہ سورة اذا الشمس کورت میں انہ لقول رسول کریم سے مراد جبرئیل (علیہ السلام) ہیں۔ کس لیے کہ اس کے بعد ہے وماھو بقول شیطان رجیم کا جس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ ملک کریم کا کلام ہے نہ شیطان رجیم کا۔ اسی طرح اس جگہ فرماتا ہے وماھو بقول شاعر کہ یہ شاعر کا کلام نہیں جیسا کہ ابوجہل کہتا ہے۔ کس لیے کہ اول تو شعراء کو وزن و بحرلازم ہے اور قرآن مجید میں یہ بات نہیں۔ دوم شعراء تخیلاتِ بےاصل مبالغہ کو دخل دیتے ہیں قرآن مجید میں یہ بالکل نہیں بلکہ قرآن میں حقائق و معارف بدلائل ثابت کئے گئے ہیں۔ دونوں کلاموں میں بدیہی فرق ہے لیکن قلیلا ماتوء منون تم بہت کم مانتے ہو محض ہٹ دھرمی کر رہے ہو۔ ولابقول کاہن اور نہ یہ کسی کاہن کا کلام ہے جیسا کہ عقبہ کہتا ہے۔ کاہن عرب میں اس کو کہتے تھے جو جن اور چڑیلوں کی نذرونیاز کیا کرتے تھے اور کبھی ارواح خبیثہ ان پر مسلط ہو کر عالم محسوس کے واقعات مقفٰی اور مسبحع عبارت میں بیان کیا کرتے تھے کہ فلاں مسافر فلاں منزل پر ہے، اس وقت یہ کر رہا ہے یا فلاں شخص کا مال چور چرا کر فلاں جگہ لے گیا ہے۔ وغیر ذلک جیسا کہ ہندوستان میں بعض لوگ بھتنیوں وغیرہ کے زور سے ایسی باتیں بتایا کرتے ہیں۔ کوئی شیخ سدو سے پوچھا کرتا ہے کسی کے سر پر میراں آتے ہیں، کسی کے زین خان، کسی کے بھیروں، کسی کے ہنومان۔ قرآن مجید میں اور ایسے کلام میں بہت بڑا فرق ہے۔ اول تو ایسے لوگ مکارم اخلاق و اصلاح معاش و معاد کے قوانین کی تعلیم کیا جانیں ‘ نہ ان کو عالم آخرۃ کے احوال سے خبر ‘ نہ واقعات گزشتہ کی صحیح صحیح خبر نہ روح کو منور کرنے والے علوم، نہ مکارم اخلاق کی تعلیم۔ برخلاف اس کے قرآن مجید میں یہ سب باتیں ہیں۔ دوم وہ بھوت و جن اپنی نذرونیاز کی تاکید کرتے ہیں اور جو نہیں مانتا اس پر خفا ہوتے ہیں۔ برخلاف اس کے قرآن مجید میں ان باتوں کی برائی اور بت پرستی اور ان خبائث کی مذمت ہے۔ پھر کیا یہ خبائث اپنی برائی آپ کرتے ہیں ! ذرا غور کرو لیکن قلیلا ماتذکرون۔ تم کم غور کرتے ہو، بہت کم سمجھتے ہو۔ بعض مفسرین کہتے ہیں کم ایمان لاتے ہو، کم سمجھتے ہو کے معنی ہیں کہ بالکل نہیں لاتے، بالکل نہیں سمجھتے کس لیے کہ محاورہ ہے جب کوئی نہیں آتا تو اس کو کہتے ہیں تم کم آتے ہو۔ اسی طرح عرب کا یہ محاورہ ہے۔ اب ایک بات یہ باقی رہ گئی کہ قرآن مجید تو اللہ کا کلام ہے جیسا کہ آپ ہی فرماتا ہے : تنزیل من رب العالمین کہ یہ رب العالمین کا نازل کیا ہوا ہے۔ کلام اپنے متکلم کی شان خود بیان کردیتا ہے۔ شہوت پرستوں، عیاشوں کا کلام ویسا ہی ہوتا ہے۔ بادشاہوں کے کلام میں شان و شوکت نمایاں ہوتی ہے۔ حکیموں کے کلام میں حکمت کے انوار چمکا کرتے ہیں۔ اب قرآن کا شان و انداز کہے دیتا ہے کہ یہ رب العالمین کا کلام ہے۔ ہر قوم و ہر ملک کے لوگوں کو اسی شان ربوبیت سے مامور کرتا ہے۔ بلالحاظ شرافت خاندانی و دولتمندی ہر ایک کو انہیں بزرگی بھرے لفظوں سے مغفرت کا وعدہ اور سزا کی خبر دیتا ہے۔ پھر جب یہ اللہ کا کلام ہے تو محمد ﷺ و جبرئیل (علیہ السلام) کا کلام کیونکر کہہ دیا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اضافت کے لیے ادنیٰ ملابستہ اور تھوڑا سا علاقہ بھی کافی ہوتا ہے۔ خود بادشاہ نوکر سے کہہ دیا کرتا ہے، تم اپنے ملک میں ایسا کرو، اپنے گھوڑوں کو یوں رکھو حالانکہ ملک اور گھوڑے بادشاہ کے ہوتے ہیں۔ قرآن مجید دراصل کلام الٰہی ہے مگر عالم ملکوت سے آنحضرت ﷺ تک لانے میں جبرئیل (علیہ السلام) واسطہ ہیں اس لیے ان کا کلام کہہ دینا ٹھیک ہے۔ وہی اپنی زبان سے آنحضرت ﷺ کو تلقین کرتے ہیں اور آنحضرت ﷺ اپنی زبان مبارک سے امت کو سناتے ہیں اس لیے آنحضرت ﷺ کا کلام کہہ دینا بھی بےجا نہیں۔ ایک شبہ پیدا ہوسکتا تھا کہ ممکن ہے رسول اپنی طرف سے بھی کچھ اس کلام میں جو رب العالمین کی طرف سے نازل ہوتا ہے ملا دیتے ہوں، اس کو دفع کرتا ہے ولوتقول علینا بعض الاقاویل لاخذنامنہ بالیمین الخ کہ اگر وہ ہم پر اپنی طرف سے کوئی بات بھی بناتا تو ہم اس کا داہنا ہاتھ پکڑ کر گردن مار دیتے۔ عرب میں دستور تھا کہ جب مجرم کو قتل کرتے تھے تو اس کا داہنا ہاتھ پکڑ لیتے تھے کہ کچھ نہ کرسکے۔ پھر اس کی گردن مار دیتے تھے۔ اس طریقے کے موافق رسول کی نسبت کلام کیا گیا۔ (ابن جریر) قراء و ابن قتیبہ و مبردوزجاج کہتے ہیں یمین کے معنی ہیں قوۃ کے یعنی ہم اس کو مضبوطی سے پکڑتے کہ سرکنے نہ پاتا اور ثم لقطعنامنہ الو تین کے معنی بھی ابن قتیبہ کے نزدیک یہ ہیں کہ ہلاک کردیتے، خاص گردن مار دینا مراد نہیں۔ وتین ابن عباس ؓ کہتے ہیں کہ یہ دل کی رگ ہے۔ بعض کہتے ہیں شاہ رگ مراد ہے جو گردن میں نمایاں ہے۔ حلقوم کے قریب اس کے کٹ جانے سے آدمی بچ نہیں سکتا۔ فمامنکم من احدعنہ حاجزین پھر تم میں سے کوئی بھی اس کو بچا نہ سکتا۔ خلاصہ یہ کہ اگر محمد ﷺ اپنی طرف سے کچھ کہتے اور ہماری طرف منسوب کرتے جیسا کہ منکرین نبوت کا شبہ ہے تو ہم اپنے قدیم قانون کے موافق جس کا کہ ہم نے توریت میں بھی ذکر کیا ہے ضرور ہلاک کردیتے، سرسبز نہ ہونے دیتے۔ آنحضرت ﷺ کی نبوت پر دوسری دلیل : یہ ایک اور دلیل آنحضرت ﷺ کی نبوت کے لیے ہے جس کی طرف توریت میں ایماء ہے۔ توریت سفراستثنا کے اٹھارہویں باب میں 20 فقرہ یہ ہے ” لیکن وہ نبی جو ایسی گستاخی کرے کہ کوئی بات میرے نام سے کہے جس کے کہنے کا میں نے اسے حکم نہیں دیا اور معبودوں کے نام سے کہے تو وہ نبی قتل کیا جائے “۔ دنیاوی بادشاہ فرامین اور احکام شاہی میں جعل کرنے والے یا جھوٹے مدعی کو بنظر انتظام مملکت نہیں چھوڑتے تو پھر خداوند عالم نبوۃ کے باب میں جھوٹے مدعی کو کب سلامت چھوڑتے اور اس کو سرسبز بھی ہونے دیتے۔ مگر آنحضرت ﷺ اظہار نبوۃ کے بعد سرسبز ہوتے گئے، روز بروز ترقی ہوتی گئی۔ ان کے خلفاء کے عہد میں عرب کے ریگستان سے نکل کر مشرق و مغرب میں کس شان و شوکت اور آسمانی برکت کے ساتھ اسلام پھیلا اور جاہل وحشی قوموں پر سایہ افگن ہوا۔ اور جس نے اس کو نہیں مانا بہت جلد خوار و ذلیل یا دل میں پشیمان ہوا۔ ان باتوں کی طرف اشارہ کرتا ہے وانہ لتذکرۃ للمتقین کہ یہ قرآن پرہیزگاروں، خدا ترس لوگوں کے لیے نصیحت و پند ہے۔ اس میں کہانت اور شاعری اور شہوانی کون سی بات ہے۔ جو قومیں سخت وحشی اور درندہ تھیں پھر جو وہ جھٹ پٹ کایا پلٹ ہوگئیں۔ مہذب، خدا پرست، باخدا، راستباز، رحمدل، محنتی، اولوالعزم، ذوفہم ‘ سلیم بن گئیں ان کے لیے اس پندنامہ کے سوا اور کون سی کتاب تھی ؟ تھوڑی دیر کے لیے عرب کے ایام جاہلیت کی سیر کیجئے۔ اس کے بعد اسلامی دنیا دیکھئے پھر یہ رات دن کا فرق آپ کو حیرت میں نہ ڈال دے گا جبکہ آپ قرآن مجید کو تذکرۃ تسلیم کرلیں گے۔ وانالنعلم ان منکم مکذبین اور ہم خوب جانتے ہیں کہ اے کفار قریش ! تم میں سے بعض تو ذاتی مکذب یعنی جھٹلانے والے ہیں جو کبھی بھی اس پر ایمان نہ لائیں گے اور ان کا کفر ہی پر خاتمہ ہوگا۔ ان کو بیشک اس قرآن سے کچھ نفع نہیں بلکہ وانہ لحسرۃ علی الکافرین بلکہ وہ ان کے لیے حسرۃ و افسوس کا باعث ہے۔ دنیا میں غلبہ و شوکت اسلام کے وقت آخرۃ میں عذاب کے وقت کہ ہائے ہم نے اس کو کیوں نہ مانا اور یہ شک و شبہ جو لوگ پیدا کرتے ہیں انہیں کی ناپاکی اور کجی باطن کے سبب سے ہے ورنہ قرآن تو لحق الیقین سراپا یقین کرنے کے قابل ہے۔ کوئی بات شبہ و انکار کی نہیں۔ ان تینوں مباحث کو پورا کر کے کلام کو اپنی تقدیس و تسبیح کرنے پر تمام کرتا ہے۔ فسبح باسم ربک العظیم کہ اپنے رب کی پاکی بیان کر جس نے قرآن بندوں کی بہتری کے لیے نازل کیا۔ اس آیت اور اس قسم کی دیگر آیات پر عمل کرنے کے لیے آنحضرت ﷺ رکوع و سجود میں سبحان ربی العظیم۔ وسبحان ربی الاعلیٰ کہا کرتے تھے اور پھر ہر نماز میں یہی طریقہ مسنون ہوگیا کہ رکوع و سجود میں بجزتسبیح کے اور کوئی چیز نہیں اور یہی مذہب ہے فقہاء و محدثین کا۔ ولہ الحمد علی الاتمام حمد اکثیرا سبحانک اللہم وبحمدک۔
Top