Tafseer-e-Madani - Al-Haaqqa : 38
فَلَاۤ اُقْسِمُ بِمَا تُبْصِرُوْنَۙ
فَلَآ اُقْسِمُ : پس نہیں میں قسم کھاتا ہوں بِمَا تُبْصِرُوْنَ : ساتھ اس کے جو تم دیکھتے ہو
پس نہیں میں قسم کھاتا ہوں ان چیزوں کی جن کو تم لوگ دیکھ رہے ہو
32 منکرین کے زعم باطل کی تردید : سو ارشاد فرمایا گیا پس نہیں ایسے نہیں ‘ یعنی ایسے نہیں جیسا کہ کفار و مشرکین اور دوسرے باطل پرستوں نے سمجھ رکھا ہے ‘ بلکہ حق وہی اور صرف وہی ہے جو کہ یہ قرآن اور اس کو پیش کرنے والے پیغمبر (صلوات اللہ وسلامہ علیہ) بتا رہے ہیں اور ان کی بتائی ہوئی ایک ایک بات نے بہرحال پورا ہو کر رہنا ہے ‘ سو قسم سے پہلے جو اس طرح کا لا آتا ہے ‘ وہ نہ تو زائد ہوتا ہے اور قسم کی نفی کیلئے ‘ بلکہ یہ قسم سے پہلے اسی بات کی تردید کیلئے آتا ہے ‘ جس کیلئے قسم کھائی گئی ہوتی ہے ‘ اور یہ عربی کا ایک عام اور معروف اسلوب ہے جو آج تک عربوں میں پایا جاتا ہے ‘ اور یہ لوگ آج بھی لاو اللہ اور بلی واللہ جیسے الفاظ سے اس طرح کی قسمیں کھاتے ہیں ‘ بلکہ یہ اسلوب خود ہماری زبان اور محاورے میں بھی علم پایا جاتا ہے ‘ چناچہ ہمارے محاورے اور عام بول چال میں بھی لوگ کہتے ہیں ‘ نہیں خدا کی قسم بات ایسے نہیں ایسے ہے وغیرہ وغیرہ۔ سو اسی طرح قسم سے پہلے استعمال کیا جانے والا یہ لا بھی ایسے ہی ہے ‘ اور اس میں دراصل بلاغت کا یہ اسلوب کارفرما ہے کہ یہ بات اور یہ خیال جس کی تردید کیلئے قسم کھائی جا رہی ہے ‘ اتنا غلط اور اس قدر لچر و بےبنیاد ہے کہ متکلم اس کی تردید میں ایک لمحے کے توقف کیلئے بھی تیار نہیں ‘ سو تعجب ہوتا ہے ان لوگوں پر جو ایسے لا کے بارے میں فوراً کہہ دیتے ہیں کہ یہ زائد ہے ‘ اور اسی بناء پر اس کا ترجمہ بھی غلط کرتے ہیں۔ والعیاذ باللہ۔ برکیف " فلا " سے منکرین کے زعم باطل کی تردید فرما دی گئی ہے۔
Top