Mutaliya-e-Quran - Al-Haaqqa : 38
فَلَاۤ اُقْسِمُ بِمَا تُبْصِرُوْنَۙ
فَلَآ اُقْسِمُ : پس نہیں میں قسم کھاتا ہوں بِمَا تُبْصِرُوْنَ : ساتھ اس کے جو تم دیکھتے ہو
پس نہیں، میں قسم کھاتا ہوں اُن چیزوں کی بھی جو تم دیکھتے ہو
[فَلَآ : پس نہیں !][ اُقْسِمُ : میں قسم کھاتا ہوں ][ بِمَا تُبْصِرُوْنَ : اس کی جو تم لوگ دیکھتے ہو ] نوٹ۔ 1: قسم سے پہلے اس طرح جو لا آیا کرتا ہے وہ نہ تو زائد ہوتا ہے اور نہ قسم کی نفی کے لیے، بلکہ یہ قسم سے پہلے مخاطب کی بات کی تردید کے لیے آتا ہے۔ قرآن میں جہاں کوئی قسم کھائی گئی ہے بالعموم دعوے کی شہادت اور اس کی دلیل کے طور پر کھائی گئی ہے۔ یہاں اصل دعوٰی اثبات جزاء و سزا ہے۔ قیامت اور جزاء و سزا پر قرآن نے جو دلائل دیے ہیں وہ پچھلی سورتوں میں بھی گزر چکے ہیں اور اس سورة میں بھی زیر بحث آئے ہیں۔ ان پر غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ ان کا تعلق آفاق وانفس کے ان شواہد سے بھی ہے جو آنکھوں سے دیکھے جاسکتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی ان صفات اور آخرت کے ان احوال سے بھی ہے جو آنکھوں سے تو نہیں دیکھے جاسکتے لیکن عقل سے سمجھے جاسکتے ہیں۔ اسی سورة میں جزاء و سزا پر جو دلیل قائم کی گئی ہے وہ پہلے قوموں کی تاریخ اور ان کی تباہی کے آثار سے قائم کی گئی ہے۔ پھر عالم غیب کے وہ احوال سنائے گئے ہیں جن سے اصحاب الیمین اور اصحاب الشمال کو سابقہ پیش آتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ان میں سے ایک کا تعلق اس عالم سے ہے جس کی گواہی تاریخ کے صفاحات اور زمین کے آثار میں موجود ہے۔ اور دوسرے کا تعلق اس نادیدہ عالم سے ہے جس کو ہرچند یہاں آنکھوں سے تو نہیں دیکھا جاسکتا لیکن عقل اس کو تسلیم کرتی ہے کیونکہ خالق کی صفات اور اس جہاں میں پیش آنے والے مکافاتِ عمل کے واقعات اس کی شہادت دیتے ہیں۔ انہی دو طرح کی دلیلوں کو گواہی میں پیش کر کے منکروں کو آگاہ فرمایا ہے کہ قرآن جس جزاء و سزا سے تمہیں آگاہ کر رہا ہے وہ ایک حقیقت ہے۔ اس عالم مشہود اور عالم غیر مشہود کے دلائل اس کی تائید میں ہیں۔ اس کو کسی شاعر کا کلام قرار دے کر جھٹلانے کو کوشش مت کرو۔ (تدبر قرآن)
Top