Maarif-ul-Quran - Al-Haaqqa : 38
فَلَاۤ اُقْسِمُ بِمَا تُبْصِرُوْنَۙ
فَلَآ اُقْسِمُ : پس نہیں میں قسم کھاتا ہوں بِمَا تُبْصِرُوْنَ : ساتھ اس کے جو تم دیکھتے ہو
تو ہم کو ان چیزوں کی قسم جو تم کو نظر آتی ہیں
بیان عظمت کلام الہی وحقانیت وصداقت قرآن کریم : قال اللہ تعالیٰ : (آیت) ” فلا اقسم بما تبصرون ....... الی ....... فسبح باسم ربک العظیم “۔ (ربط) گذشتہ آیات میں اہل سعادت وشقاوت اور انکے احوال کا ذکر تھا اور بالخصوص مجرمین کی سزا اور قیامت کی شدت اور عرش الہی سے تمام فیصلوں کے نفاذ کا بیان تھا تو ممکن تھا کہ کوئی ملحد اور منکر ان باتوں کو سن کر یہ کہنے لگے کہ یہ تو شاعرانہ مبالغہ آرائی یا کاہنوں کی باتیں ہیں تو اس کے ازالہ اور رد کے لیے اب ان آیات میں قرآنی عظمت کا بیان ہے اور یہ کہ جو کچھ وحی الہی سے کہا گیا وہ رسول کریم ﷺ کا قول اور اللہ کا پیغام ہے اس میں ذرہ برابر مبالغہ یا استعارہ ومجاز کا احتمال نہیں اس پر ایمان لانا چاہئے اور اس کی صداقت وحقانیت پر یقین کرنا چاہئے تو ارشاد فرمایا۔ سو میں قسم کھاتا ہوں ان چیزوں کی جن کو تم دیکھتے ہو اور ان چیزوں کی جن کو تم نہیں دیکھتے کہ بیشک یہ پیغام وقول ہے اس رسول عظیم کا جو بڑی ہی کرامت و عظمت والا ہے اور یہ کوئی شاعر کی بات نہیں ہے کہ تم جنت و جہنم کے احوال کو شاعرانہ مبالغہ آرائی سمجھنے لگو یا کاہنوں والی اٹکل وتخمین کی باتیں گمان کرنے لگو بلکہ یہ تو اللہ کا پیغام ہے جو اس کے رسول کریم ﷺ نے اس کے بندوں کو پہنچایا، چاہئے کہ اس پر ایمان لایا جائے لیکن افسوس کا مقام ہے کہ بہت ہی کم ہے کہ تم یقین کرو اور ایمان لاؤ اور نہ ہی یہ کاہن کی بات ہے مگر بہت ہی کم ہے کہ اے لوگو ! تم غور وفکر کرو اور نصیحت قبول کرو بلکہ یہ سب کچھ اتارا ہواکلام ہے رب العالمین کی طرف سے خدا کا پیغمبر صرف اللہ کی وحی اور اس کا پیغام ہی لوگوں تک پہنچایا کرتا ہے یہ ممکن نہیں ہے کہ کوئی بھی اللہ کا پیغمبر اپنی طرف سے کوئی بات گھڑ کر سنا دے بالفرض اگر وہ رسول ہم پر کوئی بات گھڑ کرلے آتا ایسی من گھڑت باتوں میں سے تو ہم پکڑلیتے اس کو دائیں ہاتھ سے اور اس کو اپنی سخت گرفت میں لے لیتے کیونکہ انسان بالعموم کسی گرفت اور پکڑنے کے وقت مدافعت کے لیے زوردائیں ہاتھ سے زائد لگایا کرتا ہے تو جب ہم دائیں ہاتھ سے اس کو پکڑ لیں گے تو اس کے بعد وہ کیا طاقت آزمائی کرے گا ہم سے بچنے کے لئے پھر ہم کاٹ ڈالتے، اسکی رگ گردن۔ حاشیہ (یہ وتین کا ترجمہ کیا گیا، اصل تو یہ رگ انسان کے قلب سے نکلتی ہے جس سے سارے جسم میں روح پھیلتی ہے اور یہی رگ حیوان یا انسان کے حلقوم اور گردن تک پہنچتی ہے اس وجہ سے گردن کی رگ ترجمہ کیا گیا۔ 12) پھر کوئی بھی نہیں ہوسکتا اس چیز سے اس کو بچانے والوں میں سے کیونکہ احکم الحاکمین پر جھوٹ بات لگانا کوئی معمولی جرم نہیں بلا شبہ ایسا مجرم اس پروردگار کی گرفت اور اس کی سزا سے کسی حال میں بھی نہیں بچ سکتا اور بیشک یہ باتیں نصیحت ہیں تقوی والوں کے واسطے کہ جس کسی میں ادنی درجہ بھی خوف خدا ہوگا وہ ان باتوں سے عبرت اور نصیحت حاصل کرے گا اور چونکہ دنیا میں تقوی والے بہت کم ہوتے ہیں اس لئے ہم بیشک جانتے ہیں کہ تم میں سے بہت سے وہ ہیں جو جھٹلانے والے ہیں ہماری یہ باتیں مگر یہ نہ سمجھنا چاہئے کہ مکذبین ومنکرین خدا کے عذاب اور گرفت سے بچ جائیں گے نہیں ہرگز نہیں بلکہ بیشک یہ تو حسرت ہے کافروں پر اور افسوس کا مقام ہے کہ منکر و کافر ان باتوں کا انکار کرکے خدا کے عذاب کو دعوت دے رہے ہیں اور اپنی عاقبت تباہ وبرباد کررہے ہیں اور بیشک یہ جو کہا جارہا ہے قطعی اور یقینی امر ہے جس پر ایمان ویقین ہر اہل عقل وفکر کو لازم ہے اے ہمارے پیغمبر اگر کوئی ان حقائق کو نہیں مانتا اور ان پر ایمان ویقین نہیں رکھتا تو آپ غمگین نہ ہوں بلکہ بس ایسی صورت میں پاکی بیان کرتے رہئے اپنے رب عظیم کے نام کی اس کی تحمید وتسبیح ہی سے سارے غم بھی دور ہوں گے اور قلب و دماغ کو سکون وتقویت بھی نصیب ہوگی جیسا کہ ارشاد ہے (آیت) ” ولقد نعلم انک یضیق صدرک بما یقولون فسبح بحمد ربک وکن من السجدین “۔ تو اس طرح آپ ﷺ کو تسلی دی گئی اور سکون قلب کیلئے علاج بھی بیان فرما دیا۔ روایت میں ہے آپ ﷺ نے اس آیت کے نازل ہونے پر فرمایا اجعلوھا فی رکوعکم کہ اس کو اپنے رکوع میں مقرر کرلو اور جب آیت (آیت) ” سبح اسم ربک الاعلی “۔ نازل ہوئی تو آپ ﷺ نے فرمایا اجعلوھا فی سجودکم “۔ اس وجہ سے رکوع میں تسبیح ” سبحان ربی العظیم، مقرر ہوئی اور سجدہ میں، سبحان ربی الاعلی ‘۔ میرے استاذ محترم شیخ الاسلام حضرت علامہ شبیر احمد عثمانی قدس اللہ سرہ اپنے فوائد میں تحریر فرماتے ہیں ” عالم میں دو قسم کی چیزیں ہیں ایک جن کو آدمی اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے دوسری وہ جو آنکھوں سے نظر نہیں آتی عقل وغیرہ سے انکے تسلیم کرنے پر مجبور ہے مثلا ہم کتنا ہی آنکھیں پھاڑ کر زمین کو دیکھیں وہ چلتی ہوئی نظر نہیں آئے گی، لیکن جب حکماء اپنے دلائل وبراہین پیش کریں گے تو ہم عاجز ہو کر اپنی آنکھ کی غلطی تسلیم کرنے پر مجبور ہوں گے اور اپنی عقل یا دوسرے عقلاء کی عقل کے ذریعہ سے جو اس کی ان غلطیوں کی تصحیح و اصلاح کرلیتے ہیں لیکن مشکل یہ ہے کہ ہم میں سے کسی کی عقل کام کرتی ہے ایسے ہی جس میدان میں عقل مجرد کام نہیں دیتی یا ٹھوکریں کھاتی ہے اس جگہ وحی الہی اس کی دستگیری کرکے ان بلند حقائق سے روشناس کراتی ہے شاید اسی لئے یہاں (آیت) ” ماتبصرون ومالاتبصرون کی قسم کھائی۔ یعنی جو حقائق جنت و دوزخ کے پہلے بینا ہوئے اگر دائرہ محسوسات سے بلند ہونے کی وجہ سے تمہاری سمجھ میں نہ آئیں تو اشیاء میں مبصرات وغیر مبصرات یا بالفاظ دیگر محسوسات وغیر محسوسات کی تقسیم سے سمجھ لو کہ یہ رسول کریم ﷺ کا کلام ہے جو بذریعہ وحی الہی دائرہ حس وعقل سے بالاترحقائق کی خبر دیتا ہے جب کہ ہم بہت سی غیر محسوس بلکہ مخالف حس چیزوں کو اپنی یا دوسروں کی تقلید سے مان لیتے ہیں تو بعض بہت اونچی چیزوں چیزوں کو رسول کریم ﷺ کے کہنے سے ماننے میں کیا اشکال ہے “۔ الغرض عالم کائنات میں مرئی وغیر مرئی یعنی مبصرات وغیر مبصرات پر اجمالی نظر اور ابتدائی غور وفکر اس بات کی گواہی دے گا کہ رسول اللہ ﷺ کی بتائی ہوئی ہر بات حق ہے اور اس پر ایمان لانا ضروری ہے منکرین ومکذبین کا ایسی باتوں میں ترددیا ان پر تمسخر خود انکی بےعقلی کی دلیل ہے۔ (آیت) ” ولو تقول علینا بعض الاقاویل “۔ کی تفسیر میں حضرت شاہ عبدالقادر (رح) فرماتے ہیں ” یعنی جھوٹ بناتا اللہ پر تو اول اس کا دشمن اللہ ہوتا اور ہاتھ پکڑتا یہ دستور ہے گردن مارنے کا جلاد اس کا داہنا ہاتھ اپنے ہاتھ میں پکڑ رکھتا ہے تاکہ حرکت نہ کرسکے۔ حضرت شاہ عبدالعزیز (رح) فرماتے ہیں کہ (آیت) ” تقول “ کی ضمیر رسول کی طرف لوٹتی ہے یعنی اگر رسول بالفرض کوئی حرف اللہ کی طرف منسوب کردے یا اس کے کلام میں اپنی طرف سے ملا دے جو اللہ نے نہ کہا ہو تو اسی وقت اس پر یہ معاملہ عذاب کا کیا جائے (العیاذ باللہ) کیونکہ اس کی تصدیق اور سچائی آیات بینات اور دلائل وبرائین کے ذریعہ سے ظاہر کی جا چکی ہے اب اس قسم کی بات پر فورا عذاب اور سزا نہ کی جائے تو وحی الہی سے امن اٹھ جائے گا اور ایسا التباس و اشتباہ پڑجائے گا جس کی اصلاح ناممکن ہوجائے گی جو حکمت تشریع کے منافی ہے بخلاف اس شخص کے جس کا رسول ہونا آیات وبراہین سے ثابت نہیں ہوا بلکہ کھلے ہوئے قرائن و دلائل علانیہ اس کی رسالت کی نفی کرچکے ہیں تو اس کی بات بھی بےہودہ و خرافات ہے کوئی عاقل اس کو درخور اعتنانہ سمجھے گا اور نہ دین الہی میں بحمد اللہ کوئی التباس و اشتباہ واقع ہوگا ہاں ایسے شخص کی معجزات وغیرہ سے تصدیق ہونا محال ہے ضرور ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو جھوٹا ثابت کرنے اور رسوا کرنے کے لیے ایسے امور بروئے کار لائے جو اسکے دعوائے رسالت کے مخالف ہوں (اور اس کو جھوٹا ثابت کردیں) اسکی مثال یوں سمجھو کہ جس طرح بادشاہ ایک شخص کو کسی منصب پر مامور کرے اور سند فرمان دیکر کسی طرف روانہ کرے اب اگر اس شخص سے اس خدمت میں کوئی خیانت ہوئی یا بادشاہ پر جھوٹ باندھنا اس سے ثابت ہوا تو اسی وقت بلاتوقف اس کا تدارک کرتے ہیں لیکن اگر سڑک کو ٹنے والا مزدور یا جھاڑو دینے والا بھنگی بکتا پھرے کہ گورنمنٹ کا میرے لئے یہ فرمان ہے یا میرے ذریعہ سے یہ احکام دیئے گئے ہیں تو کون اس کی بات پر کان دھرتا ہے اور کون اس کے دعوؤں سے تعرض کرتا ہے (سبحان اللہ یہ الہامی کلمات پوری طرح مرزا غلام احمد کذاب پر منطبق ہوئے) بہرحال آیت ھذا میں حضور اکرم ﷺ کی نبوت پر استدلال نہیں کیا گیا بلکہ یہ بتلایا گیا ہے کہ قرآن کریم خالص اللہ کا کلام ہے جس میں ایک حرف یا ایک شوشہ نبی کریم ﷺ بھی اپنی طرف سے شامل نہیں کرسکتے اور نہ باوجود پیغمبر ہونے کے آپ ﷺ کی یہ شان ہے کہ کوئی بات اللہ کی طرف منسوب کردیں جو اللہ نے نہ کہی ہو۔ تورات سفر استثناء کے اٹھارہویں باب میں بیسواں فقرہ یہ ہے۔ ” لیکن وہ نبی ایسی گستاخی کرے کہ کوئی بات میرے نام سے کہے جس کو کہنے کا میں نے اسے حکم نہیں دیا اور معبودوں کے نام سے کہے تو وہ نبی قتل کیا جائے “۔ خلاصہ یہ کہ جو نبی ہوگا اس سے یہ ممکن نہیں کہ ایسا کرے یہ بات تقریبا وہی ہے جو سورة بقرہ میں فرمائی گئی (آیت) ” ولئن اتبعت اھوآ ءھم بعد الذی جآءک من العلم مالک من اللہ من ولی ولا نصیر “۔ حاشیہ (فوائد عثمانی (رح) سورة الحاقہ۔ 12) الحمد للہ کہ اس تحقیق وتشریح سے مرزا غلام احمد کی طرف سے ایک عظیم دھوکہ میں ڈالنے والے بےہوداہ استدلال کا رد ہوگیا وللہ الحمد والمنۃ تم تفسیر سورة الحاقۃ ولہ الحمد والشکر ،
Top