Tafseer-e-Madani - Al-A'raaf : 105
حَقِیْقٌ عَلٰۤى اَنْ لَّاۤ اَقُوْلَ عَلَى اللّٰهِ اِلَّا الْحَقَّ١ؕ قَدْ جِئْتُكُمْ بِبَیِّنَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ فَاَرْسِلْ مَعِیَ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَؕ
حَقِيْقٌ : شایان عَلٰٓي : پر اَنْ : کہ لَّآ اَقُوْلَ : میں نہ کہوں عَلَي : پر اللّٰهِ : اللہ اِلَّا الْحَقَّ : مگر حق قَدْ جِئْتُكُمْ بِبَيِّنَةٍ : تحقیق تمہارے پاس لایا ہوں نشانیاں مِّنْ : سے رَّبِّكُمْ : تمہارا رب فَاَرْسِلْ : پس بھیج دے مَعِيَ : میرے ساتھ بَنِيْٓ اِ سْرَآءِيْلَ : بنی اسرائیل
میرا منصب ہی یہ ہے کہ میں سچ کے سوا کوئی بات اللہ کی طرف منسوب نہ کروں، میں یقینی طور پر تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے ایک روشن دلیل لے کر آیا ہوں (اپنی صداقت و حقانیت کی) پس تو بھیج دے میرے ساتھ بنی اسرائیل کو،
143 معجزہ رسول کی صداقت کا ثبوت : سو موسیٰ نے ان سے کہا یقینا میں تمہارے پاس ایک روشن دلیل لے کر آیا ہوں تمہارے رب کی طرف سے۔ یعنی عصا و ید بیضاء کا وہ معجزہ جس سے قدرت نے آپ کو نوازا تھا اور جو آنجناب کی صداقت و حقانیت کو واضح کرنے کے لئے ایک عظیم الشان معجزئہ اور کافی و وافی نشانی اور دلیل تھی۔ سو معجزہ پیغمبر کی حقانیت و صداقت کی روشن دلیل اور واضح نشان ہوتا ہے لیکن معجزہ پیغمبر کے اپنے اختیار میں نہیں ہوتا بلکہ اللہ تعالیٰ ہی کے قبضہ قدرت و اختیار میں ہوتا ہے۔ وہی اپنی مشیت ومرضی سے جس پیغمبر کے ہاتھ پر جو معجزہ جب اور جیسے چاہے ظاہر فرمائے۔ اسی لیے حضرت موسیٰ نے اس کی تصریح فرما دی۔ یعنی میں تمہارے اس رب کی طرف سے ایک روشن دلیل اور کھلا معجزہ لے کر آیا ہوں اور یہ ایک کھلا اور واضح ثبوت ہے اس بات کا کہ میں اللہ کا رسول ہوں اور جو کچھ میں تمہارے سامنے پیش کر رہا ہوں وہ سب اس اللہ کی طرف سے ہے۔ اور اللہ کے پیغام کو ماننے میں خود تم ہی لوگوں کا بھلا اور فائدہ ہے اور اس سے اعراض اور روگردانی میں خود تمہارا ہی نقصان ہے۔ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ اور میں تم لوگوں کا سچا اور حقیقی خیر خواہ ہوں کہ میں تمہیں ہلاکت و تباہی سے بچا کر دارین کی سعادت و سرخروئی کی راہ پر ڈالنا چاہتا ہوں۔ اس لیے تم لوگ میری بات مانو کہ اسی میں تمہارا بھلا ہے۔ 144 موسیٰ کی طرف سے بنی اسرائیل کی رہائی کا مطالبہ : سو ارشاد فرمایا گیا کہ حضرت موسیٰ نے فرعون سے کہا کہ تو بھیج دے میرے ساتھ بنی اسرائیل کو۔ سو حضرت موسیٰ کے مشن کا ایک اہم حصہ بنی اسرائیل کی فرعون کی غلامی سے آزادی و رہائی دلانا بھی تھا کہ وہ ان کو آزاد کردے اپنی غلامی سے۔ سو دعوت توحید کے علاوہ حضرت موسیٰ کے مشن کا یہ بھی ایک اہم حصہ تھا کہ صدیوں سے غلامی میں جکڑی ہوئی قوم بنی اسرائیل کو فرعون سے آزادی دلائی جائے، تاکہ وہ اس کی غلامی سے نجات پاکر واپس اپنے ملک میں جائیں اور وہاں جاکر آزادانہ طور پر اپنے رب کی عبادت و بندگی کریں۔ بہرکیف حضرت موسیٰ نے فرعون سے کہا کہ تو بنی اسرائیل کو اپنی قید اور غلامی سے رہا کر دے اور ان کو آزادی دے دے تاکہ یہ لوگ اپنی آبائی سرزمین ارض مقدسہ میں جابسیں۔ (ابن کثیر، صفوۃ التفاسیر وغیرہ) ۔ اور دوسرا قول اس بارے میں یہ بھی ہے کہ تو ان کو آزادی دے دے تاکہ یہ تین دن کی مسافت کے فاصلے پر صحرا میں جا کر اپنے رب کی عبادت کریں۔ (محاسن التاویل وغیرہ) ۔
Top