Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 96
وَ لَتَجِدَنَّهُمْ اَحْرَصَ النَّاسِ عَلٰى حَیٰوةٍ١ۛۚ وَ مِنَ الَّذِیْنَ اَشْرَكُوْا١ۛۚ یَوَدُّ اَحَدُهُمْ لَوْ یُعَمَّرُ اَلْفَ سَنَةٍ١ۚ وَ مَا هُوَ بِمُزَحْزِحِهٖ مِنَ الْعَذَابِ اَنْ یُّعَمَّرَ١ؕ وَ اللّٰهُ بَصِیْرٌۢ بِمَا یَعْمَلُوْنَ۠   ۧ
وَلَتَجِدَنَّهُمْ : اور البتہ تم پاؤگے انہیں اَحْرَصَ : زیادہ حریص النَّاسِ : لوگ عَلٰى حَيَاةٍ : زندگی پر وَمِنَ : اور سے الَّذِیْنَ : جن لوگوں نے اَشْرَكُوْا : شرک کیا يَوَدُّ : چاہتا ہے اَحَدُهُمْ : ان کا ہر ایک لَوْ : کاش يُعَمَّرُ : وہ عمر پائے اَلْفَ سَنَةٍ : ہزار سال وَمَا : اور نہیں هُوْ : وہ بِمُزَحْزِحِهٖ : اسے دور کرنے والا مِنَ : سے الْعَذَابِ : عذاب اَنْ : کہ يُعَمَّرَ : وہ عمر دیا جائے وَاللہُ : اور اللہ بَصِیْرٌ : دیکھنے والا بِمَا : جو وہ يَعْمَلُوْنَ : کرتے ہیں
زندگی کے سب سے زیادہ حریص یہی لوگ ہیں ، مشرکوں سے بھی زیادہ ، ان میں سے ایک ایک آدمی کا دل یہ حسرت رکھتا ہے کہ کاش ! ایک ہزار برس تک تو جیتا رہے ، عمر کی درازی انہیں عذاب آخرت سے نجات نہیں دلا سکتی کیونکہ جو کچھ وہ کر رہے ہیں اللہ کی نظروں سے وہ چھپا ہوا نہیں ہے
آخر انہوں نے اس چیلنج کو کیوں قبول نہ کیا ؟ 184: اب قابل غور بات یہ ہے کہ آخر وہ رسول اللہ ﷺ کے مقابلہ میں کیوں نہ آئے ؟ ظاہر ہے کہ یہ صرف اور صرف اس لئے کہ وہ دل سے نبی کریم ﷺ کو اور قرآن کریم کو سچا جانتے تھے ان کے دلوں میں کھٹکا تھا کہ اگر ہم نے یہ چیلنج قبول کرلیا ، اور مقابلہ میں نکل آئے تو یقیناً ہلاک ہوجائیں گے وہ جانتے تھے کہ اگر ہمارے پاس سچائی کی کوئی دلیل ہوتی تو ہم دلیل پیش کرتے۔ جب ہم دلیل پیش نہ کرسکے اور اپنے دعو وں سے بھی باز نہ آئے تب ہی رسول اللہ ﷺ نے دعوت مباہلہ دی اور یہ وہ آخری حد ہے جس پر پہنچ کر جھوٹا کبھی واپس نہیں آسکتا لہٰذا ان کو اپنی موت آنکھوں سے نظر آگئی ، اور وہ دانت دکھا کر رہ گئے۔ اللہ تعالیٰ کو تو ان ظالموں کی حقیقت کا پہلے ہی علم تھا مگر عام لوگوں میں اپنی محبت الٰہی کا راگ الاپتے تھے۔ اب اس مطالبہ کی بنا پر ان کی قلعی کھل گئی اور کسی شخص کو ان کے ظاہری تقدس سے دھوکا نہ ہوگا۔ جو لوگ مذہبی جذبات کو پاؤں تلے روند کر دنیا میں رہنا چاہتے ہیں وہ ہرگز قابل عزت نہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے اعمال کو نہایت باریک بین نظر سے دیکھ رہا ہے ان کو ضرور ذلیل کر کے غیروں کا محکوم بنا دے گا۔ اب تجزیہ کر کے دیکھو کہ ان آیات کریمات میں علمائے یہود کی حسب ذیل خرابیاں ذکر کی گئیں۔ (ا) اپنی کتاب یعنی تورات پر عمل کرنے کے دعویدار ہیں مگر ان کا یہ دعویٰ سراسر غلط اور دکھاوا ہی دکھاوا ہے۔ (ب) ان کا نصب العین اور مقصد حیات مال و دولت جمع کرنا ہے اس کے سوا کچھ بھی نہیں۔ (ج) اللہ کے ساتھ محبت کا اظہار کرتے ہیں مگر اس کے لئے کوئی قربانی کرنے کے لئے تیار نہیں خالی شیخی بھگارتے ہیں۔ (د) مذہبی جذبات کو پامال کر کے زندہ رہنا چاہتے ہیں جو انسانیت کے ہی خلاف ہے۔ آج اسی ترتیب سے اگر آپ امت مسلمہ کے علماء کے حالات کی تفتیش کریں تو یہ تمام خرابیاں ان میں نظر آئیں گی۔ ! دعویٰ تو اسلام کا ہوتا ہے مگر عملاً وہ اپنے بزرگوں اور پیروں اور ان کے غیر مستند اقوال کو مذہب بنائے بیٹھے ہیں۔ ایک شخص کی تمام زندگی گناہوں میں بسر ہوتی ہے مرتے وقت اس کے ورثاء ایک قرآن بخش دیتے ہیں اور یہ بدبخت (عالِم) ہی ہیں جو کہتے ہیں کہ اس کے تمام گناہ معاف ہوگئے۔ ایک آدمی سال بھر نماز ادا نہیں کرتا اور جمعۃ الوداع کے روز وہ دو رکعت قضائے عمری کی نماز پڑھ لیتا ہے تو اس کی تمام نمازیں معاف ہوجاتی ہیں۔ " شادی اور موت کے وقت جن رسوم کو جائز قرار دیا جاتا ہے وہ سب کی سب مسلمانوں نے عجم سے مستعار لی ہیں اور صرف روپیہ کمانے کی خاطر ان کو مذہبی رنگ دے دیا ہے۔ # اگر اللہ سے محبت ہوتی تو وہ اپنی زندگیوں کو اشاعت اسلام اور اعلائے کلمۃ الحق کے لئے وقف کردیتے اور مذہب کو کم از کم ایک دکانداری اور کاروبار نہ بنالیتے۔ گویا آج قوم مسلم کے علماء الا ماشا اللہ علمائے یہود کے بھی کان کاٹ گئے ہیں اور یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ یہود تو انہی بد اعتدالیوں اور مذہبی خرافات کی بنا پر اللہ کی لعنت کے مستحق ہوں اور مسلمانوں کے لئے ساری راہیں کشادہ رہیں۔ علمائے زمانہ کا حال حا لی (رح) کی نظر میں : بڑھے جس سے نفرت وہ تقریر کرنی جگر جس سے شق ہو وہ تحریر کرنی گنہگار بندوں کی تحقیر کرنی مسلمان بھائی کی تکفیر کرنی یہ ہے عالموں کا ہمارے طریقہ یہ ہے ہادیوں کا ہمارے سلیقہ کبھی وہ گلے کی رگیں ہیں پھلاتے کبھی جھاگ پر جھاگ ہیں منہ پر لاتے کبھی خوک اور سگ ہیں اس کو بتاتے کبھی مارنے کو عصا ہیں اٹھاتے ستوں چشم بد دور ہیں آپ دین کے نمونہ ہیں خلق رسول ﷺ امین کے سدا اہل تحقیق سے دل میں بل ہے حدیثوں پہ چلنے میں دیں کا خلل ہے فتاو وں پہ بالکل مدار عمل ہے ہر اک رائے قرآن کا نعم البدل ہے کتاب اور سنت کا ہے نام باقی خدا اور نبی سے نہیں کام باقی نبی کو جو چاہیں خدا کر دکھائیں اماموں کا رتبہ نبی سے بڑھائیں مزاروں پہ دن رات نذریں چڑھائیں شہیدوں سے جا جا کے مانگیں دعائیں نہ توحید میں کچھ خلل اس سے آئے نہ اسلام بگڑے نہ ایمان جائے وہ دین جس سے توحید پھیلی جہاں میں ہوا جلوہ گر حق زمین و زمان میں رہا شرک باقی نہ وہم و گماں میں وہ بدلا گیا آکے ہندوستان میں ہمیشہ سے اسلام تھا جس سے نازاں وہ دولت بھی کھو بیٹھے آخر مسلماں اہل کتاب کہلا کر مشرکوں سے بھی گئے گزرے ہیں : 185: یہود کی حالت بڑی عجیب ہے کہ نام کے لحاظ سے تو یہ اہل کتاب ہیں اور عمل کے لحاظ سے مشرکوں سے بھی آگے نکل گئے ہیں مشرکین کی حالت تو یہ ہے کہ قوم اور وطن کے لئے اپنی جانیں تک لڑا دیتے ہیں ، عزت اور شہرت و ناموری کی خاطر ہرچیز قربان کردیتے ہیں مگر یہ لوگ اہل علم اور اہل کتاب ہونے کے باوجود اتنی تکلیف بھی گوارا نہیں کرسکتے اور مدت ہائے دراز تک دنیا میں رہنا پسند کرتے ہیں۔ اگر ایک جاہل آدمی ایسا کرے تو اس کو معذور قرار دیا جاسکتا ہے لیکن ایک تعلیم یافتہ انسان کا سب سے بڑا جرم یہی ہے کہ وہ تعلیمات ِصادقہ پر اپنے آپ کو قربان نہ کرسکے۔ مطلب یہ ہے کہ مشرکین تو سرے سے اخروی نعمتوں کے لذت شناس ہی نہیں وہ اگر ادھر سے غیر ملتفت ہو کر اپنا مرکز توجہ اور محور زندگی اس مادی زندگی کو بنائے رکھیں تو کچھ ایسا حسرت انگیز نہیں غضب تو یہود ڈھا رہے ہیں جو اپنے اپنے آسمانی صحیفوں اور پیغمبرانہ ہدایتوں کے باوجود مشرکوں سے بڑھ کر دنیا سے لپٹے ہوئے ہیں اور ایک عجیب بات اس سلسلہ میں یہ ہے کہ تطویل عمر کے عجب عجب نظریئے آج یورپ میں قائم ہو رہے ہیں اور طرح طرح کی تدبیریں اور نسخے اس کے لئے ایجاد ہو رہے ہیں اور ان میں سب سے زیادہ پیش پیش یہودی ڈاکٹر اور سائنسدان ہیں ، اور یہاں فرمایا جارہا ہے کہ بالفرض اس قدر تطویل حاصل ہو بھی گئی تھی آخر نتیجہ کیا ہوگا ؟ خاتمہ تو ہر حال میں ایک نہ ایک روز طویل سے طویل زندگی کا بھی ضرور ہوگا اور پھر مواخذہ آخری کا سامان ، ایسی لا یعنی اور لغو تمناؤں کے پھیر میں پڑے رہنے کا آخر فائدہ ؟ گویا ان کی جتنی دوڑ دھوپ بڑھ رہی ہے اس کا جو نتیجہ بھی نکلے گا وہ انہی کے حق میں برا ہوگا۔
Top