Tafseer-Ibne-Abbas - Al-Muminoon : 66
قَدْ كَانَتْ اٰیٰتِیْ تُتْلٰى عَلَیْكُمْ فَكُنْتُمْ عَلٰۤى اَعْقَابِكُمْ تَنْكِصُوْنَۙ
قَدْ كَانَتْ : البتہ تھیں اٰيٰتِيْ : میری آیتیں تُتْلٰى : پڑھی جاتی تھیں عَلَيْكُمْ : تم پر فَكُنْتُمْ : تو تم تھے عَلٰٓي اَعْقَابِكُمْ : اپنی ایڑیوں کے بل تَنْكِصُوْنَ : پھرجاتے
میری آیتیں تم کو پڑھ پڑھ کر سنائی جاتی تھیں اور تم الٹے پاؤں پھر پھرجاتے تھے
(66۔ 67) قرآن حکیم تمہیں پڑھ کر سنایا جایا کرتا تھا اور تمہارے سامنے پیش کیا جاتا تھا تو تم اپنے پہلے دین کی طرف لوٹتے تھے اور بیت اللہ شریف کی وجہ سے خود کو بڑا سمجھتے تھے اور کہتے تھے کہ ہم اس کے زیادہ حق دار ہیں اور کہتے تھے مشغلہ اس کے چاروں طرف ہے اور رسول اکرم ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام ؓ اور قرآن کریم کی شان میں تم لوگ بیہودہ باتیں بکتے تھے۔ شان نزول : (آیت) ”۔ مستکبرین بہ“۔ (الخ) اب ابی حاتم ؒ نے سعید بن جبیر ؓ سے روایت کیا ہے کہ قریش قوم بیت اللہ کے گرد قصے کہانیاں کہا کرتی تھی اور طواف نہیں کرتی تھی اور پھر اس پر فخر کرتے چناچہ اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔
Top