Al-Qurtubi - Al-Muminoon : 66
قَدْ كَانَتْ اٰیٰتِیْ تُتْلٰى عَلَیْكُمْ فَكُنْتُمْ عَلٰۤى اَعْقَابِكُمْ تَنْكِصُوْنَۙ
قَدْ كَانَتْ : البتہ تھیں اٰيٰتِيْ : میری آیتیں تُتْلٰى : پڑھی جاتی تھیں عَلَيْكُمْ : تم پر فَكُنْتُمْ : تو تم تھے عَلٰٓي اَعْقَابِكُمْ : اپنی ایڑیوں کے بل تَنْكِصُوْنَ : پھرجاتے
میری آیتیں تم کو پڑھ پڑھ کر سنائی جاتی تھیں اور تم الٹے پاؤں پھر پھرجاتے تھے
آیت نمبر 66-67 اللہ کا ارشاد ہے : تتلیٰ علیکم تم پر پڑھی جاتی ہیں۔ ضحاک نے کہا قتل کے ساتھ عذاب دینے سے پہلے۔ تنکصون۔ تم پیچھے کی طرف لوٹتے ہو (احکام القرآن للطبری، جز 17-18، صفحہ 48) مجاہد نے کہا : اس کا معنی پیچھے ہٹتے ہو۔ اس کی اصل الٹے پائوں پیچھے ہٹنا ہے، شاعر نے کہا : زعمو بانھم علی سبل النجا وانما نکص علی الاعقاب یہاں حق سے اعراض سے استعارہ ہے۔ حضرت علی نے علی ادبارکم پڑھا ہے۔ تنکصون کاف کے ضمہ کے ساتھ ہے۔ مستکبرین بہ کی ضمیر سے حال ہے۔ جمہور نے کہا : یہ ضمیر حرم یا مسجد یا البلد کی طرف لوٹ رہی ہے، البلد سے مراد مکہ ہے اگرچہ اس کا پہلے ذکر نہیں لیکن معاملہ میں اس کی شہرت کی وجہ سے ضمیر لوٹاناجائز ہے۔ یعنی وہ کہتے ہیں کہ ہم اہل حرم ہیں پس ہم نہیں ڈرتے۔ بعض علماء نے فرمایا : اس کا معنی ہے وہ اپنے دلوں میں یہ اعتقاد رکھتے ہیں ان کے لئے مسجد اور حرم کی وجہ سے لوگوں پر زیادہ حقوق ہیں پس وہ اس وجہ سے تکبر کرتے تھے حق سے تکبر کرنا مراد نہیں۔ ایک جماعت نے کہا : ضمیر کا مرجع قرآن ہے اس حیثیت سے کہ آیات ذکر کی گئی ہیں معنی یہ ہے کہ تمہارے لئے میری آیات سننا تکبر اور سر کشی کو پیدا کرتا ہے، پس تم اس پر ایمان نہ لائو۔ ابن عطیہ نے کہا : یہ عمدہ قول ہے۔ نحاس نے کہا : پہلا قول اولی ہے اس کا معنی ہے وہ حرم کی وجہ سے فخر کرتے ہیں اور کہتے ہیں۔ ہم اہل حرم ہیں۔ اللہ کا ارشاد ہے : سمرا تھجرون۔ اس میں چار مسائل ہیں۔ مسئلہ نمبر 1 ۔ سمرا تھجرون، سامرا پر نصب حال کی بنا پر ہے اس کا معنی ہے سمارا۔ وہ جماعت جو رات کو باتیں کرتی ہے۔ یہ السمر سے مشتق ہے جس کا معنی ہے چاند کا سایہ اسی سے سمرۃ اللون ہے۔ وہ کعبہ کے ارد گرد چاند کے سایہ سے باتیں کرتے تھے۔ اس کو التحدث کہا گیا ہے۔ ثوری نے کہا : چاند کے سایہ کو السمرکہتے ہیں اسی سے السمرۃ فی اللون ہے رنگ میں گندمی رنگ کہا جاتا ہے۔ اس کو الفخت کہا جاتا ہے اور اسی سے فاختہ ہے۔ ابورجاء نے سمارا پڑھا ہے یہ جمع ہے سامر کی جیسا کہ شاعر نے کہا : الست تری السمار والناس احوالی قیلہ کی حدیث میں ہے : ا ذا جاء زوجھا من السامر، جب اس کا خاوند داستان سرائی کرنے والی قوم سے واپس آیا، یہ اسم مفرد بمعنی جمع ہے جیسے الحاصر ہے اس سے مراد وہ قوم ہوتی ہے جو پانی پر اترتی ہے۔ الباقر جمع ہے البقر کی اور الجامل جمع ہے الابل کی کی مذکر اور مذکر اور مونث دونوں کی جمع یہی ہے اسی سے اللہ کا ارشاد ہے۔ ثم یخرجکم طفلا (غافر :67) یعنی اطفالا کہا جاتا ہے قوم سمرو سمرو سامر اس کا معنی ہے رات کو جاگنا، یہ السمر سے مشتق ہے اس سے مراد چاند کی وہ روشنی ہے جو درختوں پر پڑتی ہے۔ جوہری نے کہا : السامر اور اسی طرح السمار وہ لوگ جو داستان سراء کرتے ہیں جیسے الحاج کو حجاج کہا جاتا ہے۔ شاعر کا قول ہے۔ وسامر طال فیہ اللھو والسمر گویا اس مکان کو سامر کہا جاتا ہے جس میں قصہ خوانی کے لئے جمع ہوا جاتا ہے۔ بعض علماء نے کہا : سامر واحد ہے اور بمعنی السمار ہے کیونکہ یہ وقت کے لئے وضع کیا گیا ہے۔ جیسے شاعر کا قول ہے۔ من دونھم ان جئتھم سمرا عزف القیان ومجلس غمر اور فرمایا : سمرا کیونکہ اس کا معنی ہے اگر تورات کے وقت ان کے پاس آئے گا جبکہ وہ قصہ خوانی میں مصروف ہوں گے بنا سمیر رات اور دن کو کہا جاتا ہے کیونکہ ان میں داستان سرائی ہوتی ہے کہا جاتا ہے : لا افعلہ ماسمرا سمیرا بدا میں کبھی بھی ایسا نہیں کروں گا، السمیر زمانہ کو بھی کو کہا جاتا ہے۔ اور ابناہ سے مراد رات اور دن میں۔ لا افعلہ السمر والقمر یعنی جب تک لوگ چاندنی رات میں قصہ خوانی کرتے رہیں گے میں ایسا نہیں کروں گا۔ ولاا فعلہ سمیرا للیالی، شنفری نے کہا : ھنالک لا ارجو حیاۃ تسرنی سمیر اللیالی مبسلا بالجرائر السمار سین کے فتحہ کے ساتھ پتلا دودھ۔ عرب قصہ خوانی کے لئے بیٹھتے تھے۔ یہ نجوم کے ذریعے اس کی معرفت کو ثابت کیا ہے کیونکہ وہ صحرا میں بیٹھتے تھے اور طلوع اور غروب ہونے والے ستارے دیکھے جاتے تھے۔ قریش کعبہ کے اردگرد مجالس قائم کرتے تھے اور جھوٹی اور کفریہ کہانیاں بیان کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی وجہ سے انہیں عیب لگایا۔ تھجرون۔ تاء کے ضمہ کیساتھ، میم کے کسرہ کے ساتھ اھجر سے مشتق ہے جب کوئی فحش کلام کرے اور تاء کے نصب کے ساتھ اور جیم کے ضمہ کے ساتھ ھجر المریض سے مشتق ہے جس کا معنی ہے مریض نے ہذیان بکا۔ اس کا معنی ہے وہ نبی کریم ﷺ اور قرآن کے بارے میں بری بات کرتے ہیں۔ یہ حضرت عباس ؓ وغیرہ سے مروی ہے۔ مسئلہ نمبر 2 ۔ سعید بن جبیر نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت فرمایا : جب یہ آیت نازل ہوئی مستکبرین بہ سمرا تھجرون۔ تو قصہ خوانی مکروہ ہوگئی یعنی اللہ نے اس قوم کی مذمت فرمائی ہے جو طاعت الٰہی کے علاوہ باتیں کرتے ہیں خواہ وہ ہذیان میں ہو یا کوئی اور مشورہ میں ہو۔ اعمش فرماتے تھے۔ جب میں شیخ کو دیکھتا ہوں جبکہ اس نے حدیث نہیں لکھی ہوتی تو میں اسے تھپڑ مارتا ہوں کیونکہ وہ شیوخ القمر سے ہے یعنی جو چاندنی راتوں میں جمع ہوتے ہیں خلفاء اور امراء کے زمانہ کو بیان کرتے ہیں ان میں سے کوئی نماز کے لئے اچھی طرح وضو نہیں کرتا ہے۔ مسئلہ نمبر 3 ۔ امام مسلم نے حضرت ابو برزہ سے روایت کیا ہے فرمایا : نبی کریم ﷺ عشاء کی نماز کو رات کے تہائی حصہ تک موخر فرماتے تھے اور عشاء کی نماز سے پہلے سونا اور بعد میں باتیں کرنا ناپسند فرماتے تھے۔ (صحیح مسلم، استحباب التکبیر بالصبح فی اول وقتھا وھو التغلیس، جلد 1، صفحہ 230) ۔ علماء نے فرمایا : نماز سے پہلے سونے کی کراہت اس لیے ہے تاکہ پوراوقت کہیں فوت نہ ہوجائے یا افضل وقت ضائع نہ ہوجائے، اسی وجہ سے حضرت عمر ؓ نے کہا : جو عشاء سے پہلے سوجائے اس کی آنکھ کبھی نہ سوئے۔ یہ تین مرتبہ فرمایا : جن علماء نے عشاء سے پہلے سونے کو مکروہ قراردیا ہے ان میں حضرت عمر، حضرت عبدا للہ بن عمر اور حضرت ابن عباس ؓ وغیرہ ہیں۔ یہی امام مالک کا مذہب ہے۔ بعض نے رخصت دی ان میں سے حضرت علی، حضرت ابو موسیٰ وغیرہ ہیں۔ یہ کو فیوں کا مذہب ہے۔ بعض نے شرط لگائی ہے کہ وہ اپنے ساتھ ایک شخص رکھ لے جو اسے نماز کے لئے جگائے۔ حضرت ابن عمر ؓ سے اسی طرح مروی ہے۔ یہی امام طحاوی کا مذہب ہے۔ رہا نماز کے بعد باتیں کرنا مکروہ ہونا تو یہ اس لئے ہے کیونکہ نماز گناہوں کا کفارہ ہے پس وہ سلامتی پر سوئے گا جب کہ فرشتوں نے اس کے صحیفہ کو عبادت کے ساتھ ختم کیا تھا۔ وہ قصہ کہانی کرتا ہے وہ اپنی طرف سے باتیں کرتا ہے اور اپنا اختتام لغو اور باطل چیز پر کرتا ہے اور یہ مومنین کے فعل سے نہیں ہے۔ دیر تک باتیں کرتے رہنا رات کے آخری حصہ میں نیند کو غالب کرتا ہے۔ اور رات کے آخر میں قیام بھی نہیں کرسکتا۔ بعض اوقات صبح کی نماز سے بھی رہ جاتا ہے۔ بعض علماء نے کہا : عشاء کی نماز کے بعد باتیں کرنا مکروہ ہے کیونکہ حضرت جابر بن عبدا للہ نے روایت کیا ہے فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب لوگوں کے چلنے کی آواز تھم جائے تو قصہ خوانی سے پرہیز کرو کیونکہ تم میں سے کوئی نہیں جانتا کہ اللہ اپنی مخلوق میں سے کیا پھیلائے گا، تم اپنے دروازے بند کردو اور مشکیزوں کے منہ باندھ دو اور برتن ڈھانپ دو اور چراغ بجھادو۔ (ابودائود، کتاب، ابواب النوم، باب ماجاء فی الدیک والبھائم، حدیث، حدیث نمبر 4440، روایت بالمعنی) ۔ حضرت عمر ؓ سے مروی ہے کہ وہ لوگوں کو عشاء کے بعد باتیں کرنے پر سزادیتے تھے اور فرماتے تھے : رات کے ابتدائی حصہ میں قصہ خوانی کرنا اور رات کے آخری حصہ میں سونا اپنے اعمال لکھنے والے فرشتوں کو راحت دو حتیٰ کہ حضرت ابن عمر ؓ سے مروی ہے جس نے عشاء کے بعد شعر کا ایک مصرعہ پڑھا اس کی صبح تک نماز قبول نہ ہوگی اس کی حضرت شداد بن اوس نے نبی کریم ﷺ تک سند چلائی ہے۔ بعض علماء نے کہا : عشاء کی نماز کے بعد باتیں کرنے کی کراہت میں حکمت یہ ہے کہ اللہ نے رات کو سکون کے لئے بنایا ہے جب آدمی اس میں باتیں کرئے گا اور دن کے وقت سوئے گا جب کہ اللہ نے دن کو معاش کی تلاش کیلئے بنایا ہے تو گویا اس نے اللہ کی اس حکمت کی مخالفت کی جو اس نے اس کے باوجود پر جاری فرمائی ہے۔ فرمایا : وھو الذی جعل لکم الیل لباسا والنوم سباتا وجعل النھار نشورا۔ (الفرقان) مسئلہ نمبر 4 ۔ یہ کراہت ایسی باتوں کے ساتھ مختص ہے جو عبادت، اذکار اور علم کی تعلیم کے زمرہ سے نہ ہوں اور اہل علم کی گفتگو اور مصالح کی تعلیم وغیرہ کے بارے میں نبی کریم ﷺ اور سلف صالحین سے ایسی روایات وارد ہیں جو اس کے جواز پر دلالت کرتی ہیں بلکہ اس کی ندبیت، استحباب پر دلالت کرتی ہیں۔ امام بخاری نے ایک باب باندھا ہے۔ باب السمر فی الفقہ والخیر بعدا لعشاء ذکر کیا جاتا ہے کہ قرۃ بن خالد نے کہا : ہم نے حسن کا انتظار کیا انہوں نے ہمارے پاس آنے سے دیر لگا دی حتیٰ کہ وہ اس وقت آئے جب وہ وہاں سے چلے جاتے تھے پس وہ آئے اور کہا : ہمارے پڑوسیوں نے ہمیں بلایا تھا۔ پھر حضرت انس نے فرمایا : ہم نے ایک رات رسول ﷺ کا انتظار کیا حتیٰ کہ جب آدھی رات کا وقت ہوگیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : لوگوں نے نماز پڑھ لی اور تم نماز میں رہے جب تک تم نماز کے منتظر رہے (صحیح بخاری، السمر فی الفقہ والخیر بعد العشائ، جلد 1، صفحہ 84) ۔ حسن نے کہا : قوم خیر میں ہوتی ہے جب تک خیر کے انتطار میں ہوتی ہے۔ فرمایا : باب السمر مع الضیف والاھل۔ اس کے تحت امام بخاری نے ابوبکر بن عبدا لرحمن کی حدیث لکھی ہے کہ اصحاب صفہ فقراء تھے۔ الحدیث۔ اس کو امام مسلم نے نقل کیا ہے، نیز سرحدوں کی حفاظت اور رات کے وقت لشکروں کی حفاظت پر ثواب اور اجر عظیم ذکر کیا ہے جو اخبار میں مشہور ہے۔ یہ سب آل عمران کے آخر میں گزرچکا ہے۔
Top