Tafseer-Ibne-Abbas - Al-Hujuraat : 3
اِنَّ الَّذِیْنَ یَغُضُّوْنَ اَصْوَاتَهُمْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُولٰٓئِكَ الَّذِیْنَ امْتَحَنَ اللّٰهُ قُلُوْبَهُمْ لِلتَّقْوٰى١ؕ لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّ اَجْرٌ عَظِیْمٌ
اِنَّ الَّذِيْنَ : بیشک جو لوگ يَغُضُّوْنَ : پست رکھتے ہیں اَصْوَاتَهُمْ : اپنی آوازیں عِنْدَ : نزدیک رَسُوْلِ اللّٰهِ : اللہ کا رسول اُولٰٓئِكَ : یہ وہ لوگ الَّذِيْنَ : جو، جن امْتَحَنَ اللّٰهُ : آزمایا ہے اللہ نے قُلُوْبَهُمْ : ان کے دل لِلتَّقْوٰى ۭ : پرہیزگاری کیلئے لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ : ان کیلئے مغفرت وَّاَجْرٌ عَظِيْمٌ : اور اجر عظیم
جو لوگ پیغمبر خدا کے سامنے دبی آواز سے بولتے ہیں خدا نے ان کے دل تقوے کے لئے آزما لیے ہیں ان کے لئے بخشش اور اجر عظیم ہے
بیشک جو لوگ اپنی آوازوں کو رسول اکرم کے سامنے نیچی رکھتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں کو اللہ تعالیٰ نے تقوی اور توحید کے لیے خالص کردیا ہے ان کے دنیوی گناہوں کے لیے مغفرت اور آخرت میں اجر عظیم ہے، یہ آیت بھی حضرت ثابت بن قیس کے بارے میں نازل ہوئی ہے، اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ان کی تعریف فرمائی ہے، کیونکہ انہوں نے ممانعت کے بعد آواز بالکل آہستہ کردی تھی۔ شان نزول : اِنَّ الَّذِيْنَ يَغُضُّوْنَ اَصْوَاتَهُمْ (الخ) نیز محمد بن ثابت بن قیس سے روایت ہے کہ جس وقت یہ آیت لَا تَرْفَعُوْٓا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ نازل ہوئی تو حضرت ثابت بن قیس رستہ میں بیٹھ کر رونے لگے، حضرت عاصم بن عدی کا ان کے پاس سے گزر ہوا وہ بولے کیوں روتے ہو، حضرت ثابت نے جواب دیا مجھے یہ آیت مبارکہ رلاتی ہے کیونکہ مجھے اس بات کا ڈر ہے کہ کہیں یہ آیت میرے ہی بارے میں نازل ہوئی ہو اس لیے کہ میں بہت بولنے ولا اور بلند آواز آدمی ہوں۔ حضرت عاصم نے اس چیز کی رسول اکرم کو اطلاع دی آپ نے ان کو بلایا اور فرمایا کیا تم اس بات پر راضی ہو کہ خوبیوں والی زندگی بسر کرو اور شہید ہو اور پھر جنت میں داخل ہو، حضرت ثابت کہنے لگے میں اس پر راضی ہوں اور میں کبھی بھی اپنی آواز رسول اکرم کی آواز کے سامنے بلند نہیں کروں گا، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔
Top