Tadabbur-e-Quran - Al-Hujuraat : 3
اِنَّ الَّذِیْنَ یَغُضُّوْنَ اَصْوَاتَهُمْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُولٰٓئِكَ الَّذِیْنَ امْتَحَنَ اللّٰهُ قُلُوْبَهُمْ لِلتَّقْوٰى١ؕ لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّ اَجْرٌ عَظِیْمٌ
اِنَّ الَّذِيْنَ : بیشک جو لوگ يَغُضُّوْنَ : پست رکھتے ہیں اَصْوَاتَهُمْ : اپنی آوازیں عِنْدَ : نزدیک رَسُوْلِ اللّٰهِ : اللہ کا رسول اُولٰٓئِكَ : یہ وہ لوگ الَّذِيْنَ : جو، جن امْتَحَنَ اللّٰهُ : آزمایا ہے اللہ نے قُلُوْبَهُمْ : ان کے دل لِلتَّقْوٰى ۭ : پرہیزگاری کیلئے لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ : ان کیلئے مغفرت وَّاَجْرٌ عَظِيْمٌ : اور اجر عظیم
یاد رکھو کہ جو لوگ نبی کے آگے اپنی آوازیں پست رکھتے ہیں وہی ہیں جن کے دلوں کو اللہ نے تقویٰ کی افزائش کے لئے متنخب کیا ہے ان کے لئے مغفرت اور اجر عظیم ہے۔
ان الذین یغضون اصواتھم عند رسول اللہ اولٓئک الذین امتحن اللہ قلوبھم اللتقویٰ ط لھم مغفرۃ واجر عظیم 3 رسول کے معاملے میں صحی ادب کی تعلیم یہ اس صحیح ادب کی تعلیم ہے جو رسول اللہ ﷺ کے معاملے میں ہر صاحب ایمان کو اتخیار کرنا لازم ہے۔ فرمایا کہ جو لوگ اللہ کے رسول کے آگے اپنی آوازیں پست رکھتے ہیں درحقیقت وہی لوگ ہیں جن کے دلوں کو اللہ تعالیٰ نے تقویٰ کی افزائش کے لئے متنخب فرمایا ہے۔ لفظ امتحن یہاں اصطفی یا اس کے ہم معنی کسی لفظ پر متضمن ہے جس سے یہ بات نکلتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں ہر دلتقویٰ کی تخم ریزی اور اس کی افزائش کے لئے موزوں نہیں ہوتا بلکہ اس مقصد کے لئے اللہ تعالیٰ امتحان کر کے دلوں کا انتخبا کرتا ہے اور اس انتخاب میں اصل چیز جو ترجیح دینے والی بنتی ہے وہ یہ ہے کہ آدمی کے اندر اللہ و روسل کے لئے انقیاد و اطاعت کا سچا جذبہ اور ان کے آگے فروتنی کا صحیح شعور ہے یا نہیں۔ یہ چیز جس کے اندر جتنی ہی زیادہ ہوتی ہے اس کو اتنی ہی زیادہ تقویٰ کی نعمت عطا ہوتی ہے اور جو لوگ جس درجے میں اس شعور سے عاری ہوتے ہیں وہ اتنے ہی تقویٰ سے بعید ہوتے ہیں۔ آواز بلند کرنے کا ذکر، جیسا کہ ہم نے اشارہ کیا، انسان کے باطن کے ایک مخبر کی حیثیت سے ہوا ہے۔ جو شخص کسی کی آواز پر اپنی آواز بلند رکھنے کی کوشش کرتا ہے اس کا یہ عمل شہادت دیتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو اس سے اونچا خیال کرتا ہے۔ یہ چیز اکتساب فیض کی راہ بالکل بند کردیتی ہے۔ اگر استاد کے آگے کسی شاگرد کا یہ طرز عمل ہو تو وہ اس کے فیض سے محروم رہتا ہے۔ اسی طرح الگر اللہ کے رسول کے آگے کسی نے یہ روش اختیار کی تو وہ صرف رسول ہی کے فیض سے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی توفیق سے بھی محروم ہوجائے گا اس لئے کہ رسول، اللہ تعالیٰ کا نمائندہ ہوتا ہے۔ کتاب و سنت کے فیوض سے بہرہ مند ہونے کے لئے صحیح رویہ یہی درجہ اللہ کی کتاب اور رسول کی سنت کا ہے۔ اللہ تعالیٰ انہی لوگوں کو تقویٰ کے لئے منتخب فرماتا ہے جو اس کی کتاب اور رسول کی سنت کے سامنے فروتنی کی یہ روش اختیار کرتے ہیں جس کی ہدایت رسول کے معاملے میں ہوئی ہے۔ جس شخص کے اندر اللہ و رسول کی ہر بات کے آگے سر جھکا دینے کا سچا جذبہ ہے اللہ تعالیٰ اسکے لئے تقویٰ کی راہیں کھولتا ہے اور ہر قدم پر غیب سے اس کی رہنمائی ہوتی ہے اور اگر کوئی شخص اس خبط میں مبتلا ہے کہ وہ قرآن و حدیث کی اصلاح کرنے کی پوزیشن میں ہے تو اس کا یہ پندار اس کے سارے عمل کو غارت اور اس کی آخرت کو برباد کر کے رکھ دیتا ہے۔ لھم مغفرۃ و اجر عظیم اوپر والی آیت میں نبی ﷺ کی آواز پر آواز بلند کرنے کا انجام یہ بتایا ہے کہ یہ روش اعمال کو برباد کر دنیے والی روش ہے۔ اس کے مقابل میں یہ ان لوگوں کا صلہ بیان ہوا ہے جو اپنی آواز رسول کے آگے پست رکھیں گے۔ فرمایا کہ ان کے لئے مغفرت اور اجر عظیم ہے۔ یعنی ان کی لغزشیں اور کو تاہیاں اللہ تعالیٰ بخش دے گا اس لئے کہ انہوں نے اللہ اور رسول کے آگے فروتنی کی روش اختیار کی۔ کسی گھمنڈ میں مبتلا ہو کر اپنے آپ کو اس سے بڑا سمجھنے کی جسارت نہیں کی۔ ان کی اس فروتنی کا انعام ان کو یہ ملا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو تقویٰ کی افزائش کے لئے متنخب فرمایا جس کا اجر اللہ تعالیٰ کے ہاں بہت بڑا ہے۔
Top