Mazhar-ul-Quran - Al-Hujuraat : 3
اِنَّ الَّذِیْنَ یَغُضُّوْنَ اَصْوَاتَهُمْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُولٰٓئِكَ الَّذِیْنَ امْتَحَنَ اللّٰهُ قُلُوْبَهُمْ لِلتَّقْوٰى١ؕ لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّ اَجْرٌ عَظِیْمٌ
اِنَّ الَّذِيْنَ : بیشک جو لوگ يَغُضُّوْنَ : پست رکھتے ہیں اَصْوَاتَهُمْ : اپنی آوازیں عِنْدَ : نزدیک رَسُوْلِ اللّٰهِ : اللہ کا رسول اُولٰٓئِكَ : یہ وہ لوگ الَّذِيْنَ : جو، جن امْتَحَنَ اللّٰهُ : آزمایا ہے اللہ نے قُلُوْبَهُمْ : ان کے دل لِلتَّقْوٰى ۭ : پرہیزگاری کیلئے لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ : ان کیلئے مغفرت وَّاَجْرٌ عَظِيْمٌ : اور اجر عظیم
بیشک (ف 2) جو لوگ اپنی آواز کو رسول اللہ کے حضور میں پست رکھتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں کو اللہ نے پرہیزگاری کے لیے جانچ لیا ہے ، ان کے لیے بخشش اور بڑا ثواب ہے
(ف 2) شان نزول۔ اوپر کی آیت نازل ہونے پر حضرت ثابت ؓ رونے لگے اور دل کو نہایت قلق وتفگر لاحق ہوا کہ جب تک میرا قصور معاف نہ ہوجائے گا اور مجھ کو حاضری دربار کی اجازت نہ ملے گی کہیں گھر سے باہر نہ نکلوں گا، حضور ﷺ نے حضرت سعد سے انکا حال دریافت فرمایا، انہوں نے عرض کیا، وہ میرے پڑوسی ہیں اور میرے علم میں انہیں کوئی بیماری تو نہیں ہوئی۔ پھر آکر حضرت ثابت ؓ سے اس کا ذکر کیا ثابت نے کہا کہ یہ آیت نازل ہوئی اور تم جانتے ہو کہ میں سب سے زیادہ بلند آواز ہوں اور مجھ کو اپنے آقائے نامدار خیرالابرار سے بات کرنے میں اپنے اعمال ضبط ہونے کا خوف ہے۔ حضرت سعد نے یہ خیال خدمت اقدس میں عرض کیا توحضور ﷺ نے ثابت کو بلا بھیجا اور فرمایا کہ اے ثابت، تم اس بات سے راضی نہیں ہوتے کہ تم زندہ بھی خیر سے رہو اور مرد بھی خیر سے یعنی تم شہید ہوکرمرو اور بہشت والوں میں شمار کیے جاؤ۔ انہوں نے عرض کیا کہ حضور میں راضی ہوں آپ کی آواز سے اپنی آواز بلند نہ کروں گا ان کی بشارت میں یہ آیت نازل ہوئی اور فرمایا کہ اے محبوب جو تمہارے دربار میں اپنی آوازیں پست کرتے ہیں آہستہ آہستہ بولتے ہیں ادب کا لحاظ رکھتے ہیں تو خد نے ان کے دلوں کا امتحان لیا کہ آیا ان میں تقوی ہے یا نہیں سو تقوی سے مالا مال پایا، ان کے دلوں کو مصفی ومعطر ومنور کردیا، اور توحید وخالص ان کے دلوں میں بھر دی ، دنیا میں ان کو گناہوں سے مغفرت اور جنت میں ثواب عظیم ملے گا۔
Top