Tafseer-e-Jalalain - Al-Anfaal : 24
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰهِ وَ لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ لِمَا یُحْیِیْكُمْ١ۚ وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ یَحُوْلُ بَیْنَ الْمَرْءِ وَ قَلْبِهٖ وَ اَنَّهٗۤ اِلَیْهِ تُحْشَرُوْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اٰمَنُوا : ایمان لائے اسْتَجِيْبُوْا : قبول کرلو لِلّٰهِ : اللہ کا وَلِلرَّسُوْلِ : اور اس کے رسول کا اِذَا : جب دَعَاكُمْ : وہ بلائیں تمہیں لِمَا يُحْيِيْكُمْ : اس کے لیے جو زندگی بخشے تمہیں وَاعْلَمُوْٓا : اور جان لو اَنَّ : کہ اللّٰهَ : اللہ يَحُوْلُ : حائل ہوجاتا ہے بَيْنَ : درمیان الْمَرْءِ : آدمی وَقَلْبِهٖ : اور اس کا دل وَاَنَّهٗٓ : اور یہ کہ اِلَيْهِ : اس کی طرف تُحْشَرُوْنَ : تم اٹھائے جاؤگے
اے ایمان والوں اللہ اور رسول کو لبیک کہو جب کہ وہ (یعنی رسول) تم کو تمہاری زندگی بخش چیز کی طرف بلائیں،36 ۔ اور جانے رہو کہ اللہ آڑ بن جاتا ہے درمیان انسان کے اور اس کے قلب کے اور یہ کہ تم (سب) کو اسی کے پاس اکٹھا ہونا ہے،37 ۔
36 ۔ یعنی احکام شریعت کی طرف، یہاں صاف صاف بتاد یا کہ حیات ابدی اور زندگی جاودانی بخشنے والی چیز یہی نظام دین ہے، خصوصیت کے ساتھ مراد جہاد ہے۔ (آیت) ” للرسول “ یہ بات لحاظ رکھنے والی ہے کہ قرآن مجید میں ایسے تمام موقعوں پر رسول اللہ ﷺ کا ذکر بجائے اسم ذات کے ہمیشہ رسول یا الرسول ہی سے آتا ہے۔ یہ آپ کی حیثیت رسالت کو نمایاں کرنے کے لیے ہے کہ آپ کا بلانا بھی فرستادہ الہی کی حیثیت سے اللہ ہی کا بلانا ہوتا ہے۔ (آیت) ” استجیبوا ‘ یہاں اجیبوا کے معنی میں ہے۔ 37 ۔ (اور سب کا سابقہ بالآخر اسی سے پڑتا ہے) (آیت) ” یحول بین المرء و قبلہ “۔ اللہ کا انسان اور اس کے قلب کے درمیان آڑ بن جانا دو طرح سے ہوتا ہے۔ ایک یوں کہ مومن کے قلب میں طاعت کی برکت سے کفر ومعصیت کو نہیں آنے دیتا۔ دوسرے یوں کہ کافر کے قلب میں مخالفت کی نحوست سے ایمان وطاعت کو آنے نہیں دیتا۔
Top