Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 53
وَ اِذْ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ وَ الْفُرْقَانَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ
وَاِذْ : اور جب آتَيْنَا : ہم نے دی مُوْسَى : موسیٰ الْكِتَابَ : کتاب وَ : اور الْفُرْقَانَ : جدا جدا کرنے والے احکام لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَهْتَدُوْنَ : ہدایت پالو
پھر جب موسیٰ (علیہ السلام) توراۃ کی تختیوں اور حق و باطل میں فرق کرنے والی چیز کے ساتھ اترا تاکہ تم اس کی دی ہوئی ہدایت پر عمل کرو
وحی الٰہی کے نزول کا مقصد ہدایت انسانی ہے : 112: فرمایا موسیٰ (علیہ السلام) کا پہاڑ پر جانا بغرض کتابت وحی الٰہی کے تھا اور وحی الٰہی کا منشا انسانی ہدایت یعنی قوم اسرائیل کی صحیح راہنمائی کرنا تھا۔ چناچہ موسیٰ (علیہ السلام) کو حق و باطل میں فرق کردینے والی کتاب بصورت کتابت شدہ تختیاں دی گئیں۔ جس کی کتابت خود موسیٰ (علیہ السلام) نے ہی کی تھی۔ اس جگہ تورات کو فرقان کہا گیا ہے اور قرآن کریم میں جنگ بدر کو فرقان کہا گیا ہے (الانفال 8 : 41) اور ایک جگہ قرآن کریم کو بھی فرقان کا لقب دیا گیا ہے (الفرقان 25 : 1) مؤمن کو جو ” نور “ حق و باطل میں فرق کرنے کا دیا جاتا ہے اسے بھی فرقان کہا گیا ہے (الانفال 8 : 29) اور ان سب معنوں میں ہی موسیٰ (علیہ السلام) کو بھی فرقان دینے سے یہ سب معنوں کا لحاظ رکھا گیا ہے کیونکہ یہاں فرقان سے مراد ، بنی اسرائیل کے دشمنوں کی تباہی کی خبر معجزانہ طور پر دینا ہوسکتا ہے۔ فرقان تورات کا نام بھی ہوسکتا ہے۔ اس لحاظ سے کہ وہ حق و باطل میں فرق کرنے والی ہے۔ اور وہ نور بھی ہوسکتا ہے جس سے انبیاء (علیہم السلام) حق و باطل میں فرق کرتے ہیں۔ غلامی کے آثار باقیہ کا اثر : دوسری جگہ بنی اسرائیل کے دریا سے عبور ہونے کے بعد ان کی ایک گمراہی کا ذکر اس طرح بھی کیا گیا ہے کہ جب بنی اسرائیل سمندر سے پار اتر گئے اور آگے چلتے رہے تو وہاں ان کا گزر ایک ایسی قوم پر ہوا کہ وہ اپنے بزرگوں کے بتوں پر مجاور بنے بیٹھے تھے۔ بنی اسرائیل نے کہا : اے موسیٰ ! ہمارے لئے بھی ایسے ہی معبود بنادے جیسا ان لوگوں کے لئے ہے موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا کہ تم پر بہت افسوس ہے کہ تم تو بالکل ایک جاہل قوم ہو۔ یہ لوگ جس طریقہ پر چل رہے ہیں بلاشبہ وہ تو تباہ ہونے والا طریقہ ہے اور انہوں نے جو یہ عمل اختیار کیا ہے وہ سراسر باطل اور جھوٹ ہے۔ بنی اسرائیل چونکہ مصری بت پرستی سے مالوف ہوچکے تھے اس لئے سینا کے بت خانے دیکھ کر ان کی خواہش بھی جاگ گئی کہ ان کی پرستش کے لئے بھی ایک ایسا ہی مقام ضرور ہونا چاہیے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے ان کی خواہشوں کے جواب میں فرمایا کہ کیا تم چاہتے ہو کہ اللہ کے سوا کوئی اور معبود تمہارے لئے تلاش کروں ؟ حالانکہ وہی ہے جس نے تم کو دنیا کی قوموں پر فضیلت عنایت کی ہے۔ اب موسیٰ (علیہ السلام) کوہ طور پر جانے لگتے ہیں تو اپنے بھائی ہارون سے کہتے ہیں کہ میں تو کوہ طور پر جا رہا ہوں تم میرے بعد قوم میں میرے جانشین بن کر رہو اور دیکھو سب کام اچھی طرح انجام دینا اور خرابی کی راہ سے بچنا۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) اپنے مقررہ وقت کی معیاد پوری کرنے کے لئے کوہ طور پر آئے تو ان کو اپنے رب کی طرف سے ایک آواز دی گئی تو موسیٰ (علیہ السلام) آواز سنتے ہی بےاختیار ہو کر پکار اٹھے کہ اے میرے رب ! مجھے اپنا جمال دکھا حکم ہوا تو مجھے کیسے دیکھ سکتا ہے ؟ یعنی کبھی نہیں دیکھ سکتا۔ ہاں ! اس پہاڑ کی طرف نگاہ اٹھا اگر یہ تجلی حق تو دیکھ سکا تو پھر بات کرنا۔ پھر جب اس کے رب کی قدرت نے نمود کی تو وہ پہاڑ ریزہ ریزہوگیا اور موسیٰ (علیہ السلام) غش کھا کر گر پڑے۔ جب ہوش آیا تو بولے ! اے میرے اللہ تو پاک ہے میں تیری طرف رجوع کرتا ہوں اور تیرے حضور توبہ پیش کرتا ہوں اور میں ان میں پہلا شخص ہوں جو مشاہدئہ الٰہی کی کبھی اپیل نہ کرنے والوں میں سے ہوں گا۔ تیرا جمال کون کہہ سکتا ہے ؟ تیری ہمکلامی کا شرف ہی میرے لئے کافی ہے۔ اس کے بعد موسیٰ (علیہ السلام) کو وہ الواح لکھوائی گئیں جو وہ قوم کی طرف لے کر گئے۔
Top