Mafhoom-ul-Quran - Al-Baqara : 53
وَ اِذْ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ وَ الْفُرْقَانَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ
وَاِذْ : اور جب آتَيْنَا : ہم نے دی مُوْسَى : موسیٰ الْكِتَابَ : کتاب وَ : اور الْفُرْقَانَ : جدا جدا کرنے والے احکام لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَهْتَدُوْنَ : ہدایت پالو
اور جب ہم نے موسیٰ کو کتاب اور حق کو ناحق سے جدا جدا کرنے والے احکام دیئے، تاکہ تم سیدھی راہ پاؤ۔
شرک کی سزا اور موت کے بعد زندگی تشریح : جب بنی اسرائیل کی توبہ قبول ہوگئی تو وہ دوبارہ کوہ طور پر گئے تب اللہ تعالیٰ نے انہیں آسمانی کتاب کا تحفہ دیا۔ جس کا نام تورات ہے۔ یہ شریعت، قانون، احکامات اور رشد و ہدایت کا مجموعہ تھا، اسی لئے اس کو فرقان کہا گیا ہے۔ یعنی فرق کرنے والی جھوٹ اور سچ، حق اور باطل کے درمیان اور اس، میں نیک و بد کو جدا جدا کرکے تفصیل سے بتا دیا گیا ہے تاکہ ہر ایک کو واضح طور پر سمجھ آسکے اور بنی اسرائیل پر مزید ایک احسان اللہ تعالیٰ نے اس آسمانی کتاب تورات کے ذریعہ کیا۔ اسی طرح قرآن مجید کو بھی فرقان کہا گیا ہے۔ تمام بنی نوع انسان کو چاہیے کہ وہ ان تمام قرآنی احکامات پر صدق دل سے ایمان لائیں جیسا کہ بنی اسرائیل کو اس آیت میں حکم دیا گیا ہے، کیونکہ فلاح دارین اسی میں ہے کہ حق و باطل کا فرق سمجھ کر اپنے اعمال و افعال کو صحیح سمت میں رکھ کر دنیاو آخرت میں کامیابیاں حاصل کریں اور عذاب الٰہی سے بچ سکیں۔ اگلی آیت میں بنی اسرائیل کو تنبیہہ کی جارہی ہے کہ تم نبی کی عدم موجودگی میں حق پر قائم نہ رہ سکے اور تم نے اللہ کی بجائے بچھڑے کی عبادت شروع کردی اور یوں تم نے اپنے آپ پر بہت ظلم کیا اس کی سزا یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کے احکام سے پھرجانے والوں کو قتل کرو، تاکہ صفائی ہوجائے اور تمہاری توبہ قبول ہوجائے۔ بنی اسرائیل نے حکم کی تعمیل کی اور یوں ان کی توبہ قبول ہوگئی۔ بیشک اللہ تعالیٰ غفور الرحیم ہے۔ انسان سے بھول چوک ہوجائے تو معافی مانگ لینا انسان کے لئے بہترین ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر معافی مانگنے والے پر مہربانی فرماتا ہے، اور ہر ایک کو معاف کرنے والا ہے۔ اگلی آیت میں اس واقعہ کو بیان کیا گیا ہے، کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے احکامات الٰہی قوم کو دیئے تو کچھ شریر لوگ کہنے لگے کہ ہم تو خود اپنی آنکھوں سے اللہ کو دیکھنا چاہتے ہیں پھر ہماری تسلی ہوگی اور ہم ایمان لائیں گے۔ لہٰذا ستر منتخب آدمی لے کر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کوہ طور پر گئے۔ اللہ نے ان کو سزا دی کیونکہ اللہ تعالیٰ کو بےحجاب دنیا میں دیکھنے کی آرزو ایک گستاخی اور مجرمانہ فعل ہے۔ اللہ نے ان پر آسمان سے بجلی گرائی اور وہ تمام وہیں مرگئے پھر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی درخواست پر ان کو زندہ کیا اس آیت میں اسی احسان کا ذکر کیا گیا ہے کہ تمہیں سزا کے طور پر مار دیا گیا تھا لیکن پھر احسان کے طور پر دوبارہ زندہ کیا گیا اب تو تمہیں عقل آنی چاہیے کہ بےدینی، بےراہروی اور گمراہی کے بجائے نیکی، فلاح اور دین کا راستہ ہی نجات کا راستہ ہے یہاں بھی پوری نسل انسان کو سبق ملتا ہے کہ دین حق میں نکتہ چینی، کٹ حجتی اور شکوک و شہبات کی گنجائش ہرگز نہیں ہونی چاہیے دین حق میں ہی انسان کی بھلائی ہے اور یہی نیکی اور فلاح کا راستہ ہے شریعت اور احکام الٰہی کو صدق دل سے قبول کرنا اور اس پر عمل کرنا معراج انسانیت ہے اور رضا الٰہی حاصل کرنے کا ٹھیک راستہ ہے جو جنت کو جاتا ہے اور دنیا میں بھی امن و سکون کے پھول بکھیر دیتا ہے۔ اللہ ہمیں اپنی اطاعت و فرمانبرداری کی توفیق و ہمت دے۔ ( آمین) صحیح بخاری و صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ : میں نے نبی اکرم ﷺ کو یہ فرماتے سنا ! میں جس چیز سے تمہیں روکوں اس سے بچو اور جس چیز کا حکم دوں اسے بجا لاؤ بیشک تم سے پہلے لوگوں کو ان کے سوالات کی کثرت اور انبیاء سے اختلاف ہی نے ہلاک کیا “۔ کثرت سوال سے منع کیا گیا ہے اور اتباع رسول ﷺ کا حکم دیا گیا ہے۔
Top