Tafseer-e-Jalalain - An-Nahl : 48
اَوَ لَمْ یَرَوْا اِلٰى مَا خَلَقَ اللّٰهُ مِنْ شَیْءٍ یَّتَفَیَّؤُا ظِلٰلُهٗ عَنِ الْیَمِیْنِ وَ الشَّمَآئِلِ سُجَّدًا لِّلّٰهِ وَ هُمْ دٰخِرُوْنَ
اَوَ : کیا لَمْ يَرَوْا : انہوں نے نہیں دیکھا اِلٰى : طرف مَا خَلَقَ : جو پیدا کیا اللّٰهُ : اللہ مِنْ شَيْءٍ : جو چیز يَّتَفَيَّؤُا : ڈھلتے ہیں ظِلٰلُهٗ : اس کے سائے عَنِ : سے الْيَمِيْنِ : دائیں وَالشَّمَآئِلِ : اور بائیں سُجَّدًا : سجدہ کرتے ہوئے لِّلّٰهِ : اللہ کے لیے وَهُمْ : اور وہ دٰخِرُوْنَ : عاجزی کرنے والے
کیا ان لوگوں نے اللہ کی مخلوقات میں سے ایسی چیزیں نہیں دیکھیں جن کے سائے دائیں سے ( بائیں کو) اور بائیں سے (دائیں کو) لوٹتے رہتے ہیں یعنی اللہ کے آگے عاجز ہو کر سجدے میں پڑے رہتے ہیں۔
کائنات کی ہر چیز اللہ کے سامنے سجدہ ریز ہوتی ہے تشریح : یہاں عربوں کی انتہائی بری عادت بیان کی گئی ہے جو کہ ان میں عام طور پر رواج پا چکی تھی۔ اول تو وہ لڑکی ذات کو ہی ناپسند کرتے تھے، پھر جب وہ پیدا ہوجاتی تو اس کو اپنی انتہائی ذلت کا باعث سمجھتے تو اس ذلت سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے اپنی بچی کو مار دیتے یا زندہ کو ہی دفن کردیتے اور یوں تین گناہ کرتے ایک تو اپنی اولاد پر ظلم کرتے دوسرا قتل کا گناہ کرتے اور تیسرا حکمت الٰہی میں دخل دیتے۔ اس کے علاوہ ایک بہت بڑا گناہ یہ کرتے کہ فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دیتے، یعنی جس بات کو اپنے لیے باعث شرم سمجھتے اس کو اللہ کے لیے مناسب سمجھتے اور یوں شرک کا بڑا گناہ کرتے۔ اسلام نے ان تمام گناہوں سے سختی سے منع کیا ہے، بلکہ بیٹی کی پرورش اور اسکی تعلیم و تربیت کو باعث جنت قرار دیا ہے اور یوں عورت کو عزت و احترام کی جگہ دی گئی ہے اسلام نے بتایا کہ شریعت اور قانون کی نظر میں جس طرح مرد کے حقوق ہیں اس طرح عورت کے بھی حقوق ہیں اگرچہ مرد کا درجہ زیادہ ہے۔ (سورۃ البقرہ آیت 228 ) بچیوں سے سلوک، تعلیم و تربیت میں بچیوں کو بچوں سے کم رکھنے سے منع کیا گیا ہے۔ تاکہ معاشرے میں عورت کسی بھی طرح کم تر درجہ میں نہ رہے۔ اسی آزادی اور بہترین اصول و ضوابط کا نتیجہ ہے کہ ہمیں عورت دنیا کے ہر میدان میں شاندار کامیابیاں حاصل کرتی ہوئی نظر آتی ہے، اس کے لیے شرم و حیا اور پاکیزگی کے قائم رکھنے پر زور دیا گیا ہے اور بڑے مناسب اصول اس کے لیے وضع کیے گئے ہیں جو کہ ہر صورت میں معاشرے اور عورت کی بھلائی کے لیے ضروری ہیں۔ مثلاً پردہ کا خیال رکھنا اور مردوں سے آزادانہ میل جول سے احتیاط برتنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اگر ان حدود میں رہ کر عورت کام کرے تو کوئی برا نہیں۔ آپ عورت کی تخصیص کے بارے میں غور کریں کہ اس کے بارے میں قرآن پاک میں پوری سورت سورة نساء کے نام سے اتری ہے۔ جس میں اس کے تمام تر حقوق اور فرائض کو واضح کیا گیا ہے۔
Top