Tadabbur-e-Quran - An-Nahl : 48
اَوَ لَمْ یَرَوْا اِلٰى مَا خَلَقَ اللّٰهُ مِنْ شَیْءٍ یَّتَفَیَّؤُا ظِلٰلُهٗ عَنِ الْیَمِیْنِ وَ الشَّمَآئِلِ سُجَّدًا لِّلّٰهِ وَ هُمْ دٰخِرُوْنَ
اَوَ : کیا لَمْ يَرَوْا : انہوں نے نہیں دیکھا اِلٰى : طرف مَا خَلَقَ : جو پیدا کیا اللّٰهُ : اللہ مِنْ شَيْءٍ : جو چیز يَّتَفَيَّؤُا : ڈھلتے ہیں ظِلٰلُهٗ : اس کے سائے عَنِ : سے الْيَمِيْنِ : دائیں وَالشَّمَآئِلِ : اور بائیں سُجَّدًا : سجدہ کرتے ہوئے لِّلّٰهِ : اللہ کے لیے وَهُمْ : اور وہ دٰخِرُوْنَ : عاجزی کرنے والے
کیا انہوں نے غور نہیں کیا کہ خدا نے جو چیز بھی پیدا کی ہے ان کے سائے دہنے اور بائیں سے منقلب ہوتے ہیں اللہ کو سجدہ کرتے ہوئے اور ان پر فروتنی ہوتی ہوتی ہے
آگے کا مضمون۔ آیات 48 تا 60:۔ توحید کی آفاقی و انفسی دلیلیں : آگے کی آیات میں توحید کی بعض آفاقی اور انفسی دلیلیں بیان ہوئی ہیں اور مقصود ان کے بیان کرنے سے تنبیہ کے اس مضمون کو مؤکد کرنا ہے جو اوپر کی آیات 54 تا 47 میں گزرا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ عذاب کے لیے جلدی مت مچاؤ، اگر خدا کا عذاب آگیا تو اس سے نجات دینے والا خدا کے سوا کوئی اور نہیں بن سکتا۔ اگر کسی کو اپنے دیویوں دیوتاؤں پر اعتماد ہے تو یہ واضح رہنا چاہیے کہ خدا کا کوئی شریک نہیں ہے۔ وہ وحدہ لا شریک ہے۔ کسی کی مجال نہیں ہے کہ اس کے کسی ارادے میں مزاحم یا مخل ہوسکے۔ اَوَلَمْ يَرَوْا اِلٰى مَا خَلَقَ اللّٰهُ مِنْ شَيْءٍ يَّتَفَيَّؤُا ظِلٰلُهٗ عَنِ الْيَمِيْنِ وَالشَّمَاۗىِٕلِ سُجَّدًا لِّلّٰهِ وَهُمْ دٰخِرُوْنَ۔ " تفیا " کے معنی تقلب اور ردوبدل کے ہیں۔ یہ توحید کی تکوینی دلیل بیان ہوئی ہے کہ ہر چیز کا سایہ زمین پر بچھا رہتا ہے گویا وہ خدا کے آگے سجدہ میں ہے۔ پھر وہ آہستہ آہستہ اٹھنا شروع ہوتا ہے یہاں تک کہ جب سورج سمت راس میں آتا ہے تو سایہ بالکل کھڑا ہوجاتا ہے، پھر جب سورج جھکنا شروع ہوتا ہے تو سایہ دوسری سمت میں زمین پر بچھنا شروع ہوتا ہے ہر چیز کے سایہ کے چوبیس گھنٹے اسی رکوع و سجود میں گزرتے ہیں اور یہ امر بھی قابل توجہ ہے کہ سایہ کا یہ سجدہ سورج کی بالکل مخالف سمت میں ہوتا ہے، سورج اگر پورب کی طرف ہے تو سایہ پچھم کی طرف پھیلے گا اور اگر سورج پچھم کی طرف ہے تو سایہ کا پھیلاؤ پورب کی طرف ہوگا۔ یہ ایک لطیف اشارہ ہے اس حقیقت کی طرف کہ سایہ کی فطرت ابراہیمی ہے۔ آفتاب پرستی سے اس کو عار ہے۔ اس تکوینی شہادت کی روشنی میں غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ کوئی شخص اگر سورج یا کواکب میں سے کسی چیز کی پرستش کرتا ہے تو اس کا اپنا سایہ اس کے اس فعل کی نفی کرتا ہے۔ وہ خود تو سورج کے آگے جھکتا ہے لیکن اس کا سایہ اس کی مخالف سمت میں جھکتا ے ہ۔ وہ طوعاً جس خدا کو سجدہ کرنے پر راضی نہیں ہے کرہاً اسی کے آگے سر بسجود ہے اس لیے کہ اس کا سایہ خدا ہی کے آگے جھکا ہوا ہے۔ اسی حقیقت کی طرف سورة رعد کی یہ آیت اشارہ کر رہی ہے۔ " وللہ یسجد من فی السموات والارض طوعا وکرھا وظلالہم بالغدو و الآصال : اور اللہ ہی کو سجدہ کرتے ہیں جو آسمانوں اور زمین میں ہیں، راضی خوشی یا مجبورانہ اور ان کے سائے صبح و شام سجدہ کرتے ہیں۔ " مطلب یہ ہے کہ جو شخص طوعاً خدا کو سجدہ کرتا ہے اس کے سجدہ تکوینی اور سجدہ اختیار میں تو پوری پوری مطابقت ہوتی ہے، رہا وہ شخص جو غیر اللہ کو سجدہ کرتا ہے تو اس کا اپنا سایہ اس کے اس سجدہ پر نکیر کرتا ہے۔ " وھم داخرون " یعنی اس تکوینی سجدہ میں ان پر عاجزی و فروتنی طاری ہوتی ہے۔ اب اگر کوئی شخص اس سے بارہ کی حالت میں خدا سے اکڑتا ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ اپنے دائرہ اختیار میں اپنی اصل جبلت سے منحرف ہے۔
Top