Tafseer-e-Jalalain - Al-Haaqqa : 38
فَلَاۤ اُقْسِمُ بِمَا تُبْصِرُوْنَۙ
فَلَآ اُقْسِمُ : پس نہیں میں قسم کھاتا ہوں بِمَا تُبْصِرُوْنَ : ساتھ اس کے جو تم دیکھتے ہو
تو ہم کو ان چیزوں کی قسم جو تم کو نظر آتی ہیں
ترجمہ : مجھے قسم ہے ان چیزوں کی جنہیں تم مخلوقات میں دیکھتے ہو، فلا میں لا زائدہ ہے اور مخلوقات میں سے جن کو تم نہیں دیکھتے ہو یعنی تمام مخلوقات کی کہ بیشک یہ (قرآن) بزرگ رسول کا قول ہے یعنی اس نے اللہ کی جانب سے ایک پیغام رساں کی حیثیت سے نقل کیا اور یہ کسی کا قول نہیں (افسوس) تمہیں بہت کم یقین ہے اور نہ کسی کاہن کا قول ہے (افسوس) تم بہت کم نصیحت لے رہے ہو دونوں فعلوں میں تا اور یا کے ساتھ ہے، اور، ما زائدہ ہے اور معنی یہ ہیں کہ وہ باتوں پر بہت کم یقین رکھتے ہیں، اور ان کا آپ ﷺ کی لائی ہوئی چیزوں میں سے بعض پر ایمان لانا مثلاً صدقہ و خیرات پر اور صلہ رحمی پر زنا وغیرہ سے باز رہنے پر، تو اس سے ان کو کوئی فائدہ نہ ہوگا (بلکہ یہ تو) رب العالمین کا اتارا ہوا کلام ہے اور اگر نبی ہم پر کوئی بھی بات گھڑ لیتا بایں طور کہ جو بات ہم نے نہیں کہی، ہماری طرف منسوب کر کے کہہ دیتا تو البتہ ہم یقینا قوت اور قدرت کے ساتھ سزا میں پکڑ لیتے پھر ہم اس کی شہہ رگ کاٹ دیتے یعنی قلب کی رگیں کاٹ دیتے، اور وہ تین رگیں ہیں جو قلب سے متصل ہیں، جب وہ رگیں کٹ جاتی ہیں تو وہ شخص مرجاتا ہے، پھر تم میں سے کوئی بھی مجھے اس سے روکنے والا نہ ہوگا احد، ما کا اسم ہے اور من تاکید نفی کے لئے زائدہ ہے، اور منکم، احد سے حال ہے اور حاجزین بمعنی مانعین، ما کی خبر ہے اور مانعین کو جمع لایا گیا ہے، اس لئے کہ احد نفی کے تحت داخل ہونے کی وجہ سے جمع کے معنی میں ہے اور عنہ کی ضمیر آپ ﷺ کی طرف راجع ہے یعنی ہم کو اسے عذاب دینے سے کوئی چیز نہیں رو سکتی، یقینا یہ قرآن پرہیزگاروں کیلئے نصیحت ہے ہم کو پوری طرح معلوم ہے کہ تم میں سے اے لوگو ! بعض لوگ قرآن کی تکذیب کرنے والے ہیں اور بعض تصدیق کرنے والے اور بیشک یہ قرآن (یعنی اس کی تکذیب) کافروں کے لئے حسرت ہے جب کہ یہ لوگ تصدیق کرنے والوں کے اجر کو اور تکذیب کرنے والوں کے عذاب کو دیکھیں گے اور بیشک یہ قرآن یقینی حق ہے، پس آپ اپنے رب عظیم کی پاکی بیان کریں، لفظ اسم زائد ہے۔ تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد قولہ : انہ لقول رسول کریم یہ اور وما ھو بقول شاعر اور ولا بقول کا ھن یہ تینوں جواب قسم ہیں مقاتل (رح) تعالیٰ نے کہا ہے کہ اس آیت کا سبب نزول یہ ہے کہ جب ولید بن مغیرہ نے کہا کہ محمد ﷺ ساحر ہیں اور ابوجہل نے کہا کہ شاعر ہیں اور عقبہ نے کہا کہ کاہن ہیں تو اللہ نے اپنے مذکورہ کلام سے مذکورہ تینوں کا رد فرمایا۔ قولہ : ای قالہ رسالۃ اس اضافہ کا مقصد اس اعتراض کا جواب دینا ہے کہ اللہ کے کلام کو رسول کا کلام کیوں کہا گیا ؟ جواب : جواب کا حاصل یہ ہے کہ رسول کی جانب وہ رسول خواہ جبرئیل ہوں یا نبی، ادنیٰ مناسبت کی وجہ سے نسبت کردی گئی ہے حضرت جبرئیل امین چونکہ پیغام رساں کی حیثیت سے کلام کو لاتے ہیں اور رسول ﷺ اپنی امت کو تبلیغ کرتے ہیں اسی لئے اس کلام کی نسبت آپ ﷺ کی اور جبرئیل کی طرف کرنا درست ہے۔ قولہ : قلیلا، قلیلا دونوں جگہ موصوف محذوف کی صفت ہے ای ایمانا قلیلا و ذکراقلیلا۔ قولہ : نیاط القلب وہ رگ جو قلب سے متصل ہوتی ہے، اس کو شہ رگ اور رگ جان بھی کہتے ہیں اس کے کٹنے سے یقینا موت واقع ہوجاتی ہے۔ قولہ : وجمع الخ یہ ایک سوال مقدر کا جواب ہے۔ سوال : من احد، ما کا اسم ہے اور حاجزین اس کی خبر ہے اسم و خبر میں مطابقت نہیں ہے اس لئے کہ اسم واحد جبکہ خبر جمع ہے۔ جواب : احد نکرہ تحت النفی ہونے کی وجہ سے معنی کے ہے لہٰذا اب کوئی اعتراض نہیں رہا۔ قولہ : و مصدقین اس کے اضافہ کا مقصد یہ بتانا ہے کہ معطوف مع حرف عطف محذوف ہے، اس کا عطف مکذبین پر ہے۔ قولہ : حق الیقین اس کی تفسیر للیقین سے کر کے اشارہ کردیا کہ یہ اضافت صفت الی الموصوف ہے۔ تفسیر و تشریح فلا اقسم بما تبصرون وما لا تبصرون یعنی قسم ہے ان تمام چیزوں کی جن کو تم دیکھتے ہو یا دیکھ سکتے ہو اور جن کو تم نہ دیکھتے ہو اور نہ دیکھ سکتے ہو یعنی تمام چیزوں کی قسم خواہ وہ مرئی ہوں یا غیر مرئی۔
Top