Urwatul-Wusqaa - An-Nahl : 52
قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَاۤ اَنْفُسَنَا١ٚ وَ اِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَ تَرْحَمْنَا لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ
قَالَا : ان دونوں نے کہا رَبَّنَا : اے ہمارے رب ظَلَمْنَآ : ہم نے ظلم کیا اَنْفُسَنَا : اپنے اوپر وَاِنْ : اور اگر لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا : نہ بخشا تونے ہمیں وَتَرْحَمْنَا : اور ہم پر رحم (نہ) کیا لَنَكُوْنَنَّ : ہم ضرور ہوجائیں گے مِنَ : سے الْخٰسِرِيْنَ : خسارہ پانے والے
اُنہوں نے کہا پروردگار ! ہم نے اپنے ہاتھوں اپنا نقصان کیا اگر تو نے ہمارا قصور نہ بخشا اور ہم پر رحم نہ فرمایا تو ہمارے لیے بربادی کے سوا کچھ نہیں
توبہ کر کے آدم وحوا (علیہما السلام) نے ہاری ہوئی بازی دوبارہ جیت لی : 26: آدم و حوا (علیہما السلام) کو جب اپنے قصور کا احساس ہوا اور انہوں نے اس حالت سے نکلنا چاہا تو اپنے گمراہ کرنے والے کو مطعون کرنے کی بجائے بالکل صاف لفظوں میں اپنے رب کے سامنے معذرت پیش کردی کہ ” پروردگار ہم نے اپنے ہاتھوں اپنا نقصان کیا اور اگر تو نے ہمارا قصور نہ بخشا اور ہم پر رحم نہ فرمایا تو ہمارے لئے بربادی کے سوا کچھ نہیں۔ “ تو بہ کیا ہے ؟ ہار مان لینا اور واپس پلٹ آنا۔ بندہ کی طرف سے توبہ کے یہ معنی ہیں کہ جو کچھ اس سے ہوگیا وہ اس پر نادم ہو کر باز آگیا اور اللہ کی طرف سے توبہ کے معنی یہ ہیں کہ وہ اپنے شرمسار بندہ کی طرف رحمت کے ساتھ متوجہ ہوگیا اور اس کی پھر سے نظر عنایت اس کی طرف مائل ہوگئی۔ یہی وہ مقام ہے جس کے متعلق ہم نے پیچھے عرض کیا تھا کہ کبھی فرمانبرداری کی طاقت باوجود نافرمانی کی طاقت وقوت سے زیادہ ہونے کے بھی شکست کی جاتی ہے۔ آدم وحوا (علیہما السلام) نے سراپا ندامت بن کر توبہ کا دروازہ کھٹکھٹایا تو اللہ تعالیٰ نے ان کی التجا کو قبول کرتے کچھ دیر نہ لگائی اور اسی وقت ان کی توبہ قبول فرما لی۔ ام ابی حیان اندلسی (رح) نے اس جگہ خوب لکھا ہے کہ پانچ چیزیں تھیں جو آدم وحوا (علیہما السلام) کی معافی کا باعث ہوئیں۔ (1) ۔ اپنی غلطی کا بالکل صاف لفظوں میں اعتراف۔ (2) ۔ سچے دل سے ندامت کا اظہار۔ (3) ۔ بغیر کسی عذر کے اپنے آپ کو ملامت کرنا۔ (4) ۔ بغیر کسی واسطہ اور وسیلہ کے اپنے رب کی طرف رجوع۔ (5) ۔ اور رحمت الٰہی پر کامل بھروسہ کہ میری بھول سے اس کی رحمت بہت وسیع ہے اور اس طرح پانچ چیزیں شیطان کی تباہی و بربادی کا باعث ہوئیں۔ (1) ۔ مجرم ہونے کے باوجود اپنے جرم کو تسلیم نہ کرنا۔ (2) ۔ نادم وشرمندہ ہونے کی بجائے اکڑنا اور اترانا۔ (3) ۔ توبہ کرنے کی بجائے اپنے موقف پر ڈٹ جانا کہ جو میں نے کیا وہ بالکل صحیح ہے۔ (4) ۔ ارتکاب جرم پر اپنے آپ کو ملامت کرنے کی بجائے اس کے صدور کی نسبت دوسرے کی طرف کرنا۔ (5) ۔ اور رحمت الٰہی سے مطلق مایوس ہوجانا۔ سورة بقرہ میں صرف آدم (علیہ السلام) کا ذکر ہے اور اس سورة میں آدم وحوا (علیہما السلام) دونوں کا لیکن اس میں کوئی اختلاف اور تضاد نہیں کیونکہ دونوں ایک جنس سے متعلق ہیں۔ ذکر ایک کا ہو تو دوسرا اس میں خود بخود موجود ہے اور جیسا کہ ہم نے اوپر باربار ذکر کیا ہے کہ دراصل یہ فطرت انسانی کا بیان ہے جس میں پوری انسانیت مخاطب ہے اور اس کی فطرت کو بیان کیا گیا ہے جو حالات اس وقت ہمارے آباء کو پیش آئے بالکل وہی آج بھی ہم اولاد آدم (علیہ السلام) کو آرہے ہیں اور رہتی دنیا تک اسی طرح پیش آتے رہیں گے اور ماحصل سارے کلام کا یہی ہے کہ فطرت کبھی بدلتی نہیں۔ انسان سے غلطی کا سرزد ہونا اتنا جرم نہیں جتنا غلطی کرنے کے بعد اس پر ڈٹ جانا جرم ہے۔ غلطی کا سرزد ہونا اور پھر اس کو تسلیم کرلینا اور مالک حقیقی سے معافی طلب کرنا انسانیت ہے اور غلطی کرنا اور پھر غلطی پر ڈٹ جانا اور آئیں بائیں شائیں کرنا فعل شیطانی ہے۔ قرآن کریم نے اس طرح فطرت انسانی کو بیان کر کے رہتی دنیا تک کے انسانوں کو مقیاس انسانیت دے دی تاکہ ہر انسان اپنا تجزیہ کر کے اپنی انسانیت کو چیک کر کے دیکھ سکے کہ وہ انسانیت کی حدود کے اندر ہے یا اس سے باہر نکل چکا ہے لیکن افسوس کہ اس فطرت انسانی کے قصہ کو صرف ایک انسان کا قصہ قرار دے کر علمائے اسلام کی اکثریت نے ان سارے فوائد پر پانی پھیر دیا جو فطرت انسانی کے لئے اس میں رکھے گئے تھے اور اب یہ قصہ لوگوں کو الف لیلیٰ کی کہانی کی طرح سنایا جاتا ہے والی اللہ المشتکی واللہ المستعان علی ما تصفون۔
Top