Jawahir-ul-Quran - Al-Baqara : 16
اُولٰٓئِكَ الَّذِیْنَ اشْتَرَوُا الضَّلٰلَةَ بِالْهُدٰى١۪ فَمَا رَبِحَتْ تِّجَارَتُهُمْ وَ مَا كَانُوْا مُهْتَدِیْنَ
أُولَٰئِکَ : یہی لوگ الَّذِينَ : جنہوں نے اشْتَرَوُا : خرید لی الضَّلَالَةَ : گمراہی بِالْهُدَىٰ : ہدایت کے بدلے فَمَا رَبِحَتْ : کوئی فائدہ نہ دیا تِجَارَتُهُمْ : ان کی تجارت نے وَمَا کَانُوا : اور نہ تھے مُهْتَدِينَ : وہ ہدایت پانے والے
یہ وہی ہیں جنہوں نے مول لی گمراہی ہدایت کے بدلے33 سو نافع نہ ہوئی ان کی سوداگری اور نہ ہوئے راہ پانے والے34
33 ۔ اُولٰۗىِٕكَ سے مذکورہ منافقین کی طرف اشارہ ہے جن کی خباثتوں کا ابھی ابھی ذکر ہوا ہے۔ ان کی تمام خباثتوں کا سرچشمہ اختیاری گمراہی ہے۔ انہوں نے راہ ہدایت کو چھوڑ کر راہ ضلالت پر چلنے کی ٹھان لی ہے۔ اشتراء کے معنی خریدے کے ہیں اور ظاہر ہے کہ خریداری کیلئے ضروری ہے کہ قیمت خریدار کے پاس موجود ہو۔ یہاں ہدایت کو گمراہی کی قیمت قرار دیا گیا ہے جس کے عوض منافقوں نے گمراہی مول لی تو اس سے لازم آتا ہے کہ منافقین پہلے ہدایت پر تھے۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے کیونکہ یہ لوگ شروع ہی سے منافقانہ طور پر ایمان لائے تھے تو اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ یہاں اشتراء بمعنی استبدال نہیں بلکہ محض ترجیح اور اختیار کے معنی میں ہے ان الاشتراء مجاز عن الاختیار فکانہ تعالیٰ قال اختاروا الضلالۃ علی الھدی (روح ص 191 ج 1) یعنی انہوں نے ہدایت پر گمراہی کو ترجیح دی اور ہدایت کی بجائے گمراہی کو اختیار کیا۔ لیکن اس صورت میں بالہدای کی باء بمعنی علی ہوگی۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ اشتراء اپنے حقیقی معنوں ہی میں ہے اور ہدایت سے مراد وہ فطری ہدایت ہے جو اللہ نے انسان کی فطرت میں رکھی ہے۔ المراد بالھدی الجبلی وقد کان حاصلا لھم حقیقۃ فان کل مولود یولد علی الفطرۃ (روح ص 191 ج 1) اس صورت میں تمام الفاظ اپنی حقیقت پر رہتے ہیں اور کسی قسم کے مجاز کا ارتکاب کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ 34 ۔ مگر یہ سودا ان کیلئے نفع بخش ثابت نہ ہوا اور ہوتا بھی کیسے انہوں نے یہ سودا ہی بےعقلی اور بےبصیرتی سے کیا ہے اور ایک ایسی چیز خرید لی ہے جس میں سراسر نقصان ہی نقصان ہے۔
Top