Jawahir-ul-Quran - Al-Ahzaab : 14
وَ لَوْ دُخِلَتْ عَلَیْهِمْ مِّنْ اَقْطَارِهَا ثُمَّ سُئِلُوا الْفِتْنَةَ لَاٰتَوْهَا وَ مَا تَلَبَّثُوْا بِهَاۤ اِلَّا یَسِیْرًا
وَلَوْ : اور اگر دُخِلَتْ : داخل ہوجائیں عَلَيْهِمْ : ان پر مِّنْ : سے اَقْطَارِهَا : اس (مدینہ) کے اطراف ثُمَّ : پھر سُئِلُوا : ان سے چاہا جائے الْفِتْنَةَ : فساد لَاٰتَوْهَا : تو وہ ضرور اسے دیں گے وَمَا تَلَبَّثُوْا : اور نہ دیر لگائیں گے بِهَآ : اس (گھر) میں اِلَّا : مگر (صرف) يَسِيْرًا : تھوڑی سی
اور اگر شہر میں کوئی گھس آئے ان پر اس کے کناروں سے 21پھر ان سے چاہے دین سے بچلنا تو مان لیں اور دیر نہ کریں اس میں مگر تھوڑی
21:۔ ولو دخلت الخ، یہ منافقین کے نفاق اور فساد باطن کی ایک نہایت عمدہ تمثیل ہے۔ دخلت کا نائب فاعل بیوت کی ضمیر ہے۔ اقطارھا کی ضمیر مدینہ سے کنایہ ہے۔ الفتنۃ سے مراد قتال ہے۔ فرض کرو اگر یہ منافقین اپنے گھروں میں موجود ہوں اور مدینہ کی چاروں سمتوں سے فسادی لوگ ان کے گھروں میں آگھسیں، پھر پیغمبر (علیہ السلام) کے علاوہ کوئی اور شخص ان کو فتنہ و فساد کی خاطر لڑائی کی دعوت دے تو اپنے گھروں کو اس طرح خطرے میں چھوڑ کر فورًا فتنے کی آگ میں کود پڑیں گے اور ذرا توقف و تامل کریں گے اس لیے یہ گھروں کے خطرے میں ہونے کا عذر محض جہاد اور نصرت اسلام سے جان بچانے کے لیے کر رہے ہیں یا فتنہ سے مراد شرک ہے اور مطلب یہ ہے کہ اگر مشرکین ان کے گھروں میں جا گھسیں اور انہیں شرک کرنے پر آمادہ کریں تو یہ لوگ بلا توقف فورًا شرک کرنے لگیں گے۔ اور کفر کو قبول کرلیں گے۔ یہ ہے ان کے ایمان کی کمزوری کا حال (روح) ۔
Top