Jawahir-ul-Quran - Al-Ghaafir : 70
الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِالْكِتٰبِ وَ بِمَاۤ اَرْسَلْنَا بِهٖ رُسُلَنَا١ۛ۫ فَسَوْفَ یَعْلَمُوْنَۙ
الَّذِيْنَ : جن لوگوں نے كَذَّبُوْا : جھٹلایا بِالْكِتٰبِ : کتاب کو وَبِمَآ : اور اس کو جو اَرْسَلْنَا : ہم نے بھیجا بِهٖ : اسکے ساتھ رُسُلَنَا ڕ : اپنے رسول فَسَوْفَ : پس جلد يَعْلَمُوْنَ : وہ جان لیں گے
وہ لوگ کہ جنہوں نے68 جھٹلایا اس کتاب کو اور اس کو کہ بھیجا ہم نے اپنے رسولوں کے ساتھ سو آخر جان لیں گے
68:۔ ” الذین کذبوا بالکتب “ یہاں سے لے کر ” فبئس مثوی المتکبرین “ تک تخویف اخروی کا اعادہ ہے۔ ” الذین کذبوا “ ، الذین یجادلون سے بدل ہے۔ یا اس کی صفت ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اللہ کی کتاب کو جھٹلایا اور خاص طور سے اس مسئلہ توحید کا انکار کیا جس کی تبلیغ کے لیے ہم نے تمام انبیاء و رسل (علیہم السلام) کو بھیجا، جیسا کہ دوسری جگہ ارشاد ہے ” وما ارسلمنا من قبلک من رسول الا نوحی الیہ انہ لا الہ الا انا فاعبدون “ (الانبیاء رکوع 2) ۔ ان لوگوں کو تکذیب و انکار اور جدال و خصام کے انجام بد کا اس وقت خوب پتہ چلے گا جب قیامت کے دن ان کی گردنوں میں طوق اور ان کے پاؤں میں بیڑیاں ہوں گی اور انہیں بھڑکتی آگ میں جھونک دیا جائیگا۔ ” الاغلال “ غل کی جمع ہے یعنی گلے کا طوق اور ” السلاسل “ سلسلۃ کی جمع ہے یعنی بیڑی جو قیدیوں کے پاؤں میں ڈالی جاتی ہے اس لیے یہاں والسلسل کی خبر محذوف ہے اور یہ ” علفتہا تبنا و ماء باردا کے قبیل سے ہے اصل میں تھا ” اذ الاغلال فی اعناقہم والسلاسل فی ارجلہم (جلالین) کیونکہ بیڑیاں پاؤں میں ڈالی جاتی ہیں۔
Top