Jawahir-ul-Quran - Al-A'raaf : 149
وَ لَمَّا سُقِطَ فِیْۤ اَیْدِیْهِمْ وَ رَاَوْا اَنَّهُمْ قَدْ ضَلُّوْا١ۙ قَالُوْا لَئِنْ لَّمْ یَرْحَمْنَا رَبُّنَا وَ یَغْفِرْ لَنَا لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ
وَ : اور لَمَّا : جب سُقِطَ فِيْٓ اَيْدِيْهِمْ : گرے اپنے ہاتھوں میں (نادم ہوئے) وَرَاَوْا : اور دیکھا انہوں نے اَنَّهُمْ : کہ وہ قَدْ ضَلُّوْا : تحقیق گمراہ ہوگئے قَالُوْا : وہ کہنے لگے لَئِنْ : اگر لَّمْ يَرْحَمْنَا : رحم نہ کیا ہم پر رَبُّنَا : ہمارا رب وَيَغْفِرْ لَنَا : اور (نہ) بخش دیا لَنَكُوْنَنَّ : ضرور ہوجائیں گے مِنَ : سے الْخٰسِرِيْنَ : خسارہ پانے والے
اور جب141 پچھتائے اور سمجھے کہ ہم بیشک گمراہ ہوگئے تو کہنے لگے اگر نہ رحم کرے ہم پر ہمارا رب اور نہ بخشے ہم کو تو بیشک ہم تباہ ہوں گے
141: یہ انتہائی ندامت اور پشیمانی سے کنایہ ہے۔ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) واپس آئے تو انہوں نے اس احمقانہ اور مشرکانہ فعل پر قوم کی ملامت کی اور ان کو سمجھایا تو وہ بہت نادم ہوئے اور اللہ تعالیٰ سے استغفار کیا اور اپنے فعل سے تائب ہوگئے۔ “ اي بعد عود موسیٰ من المیقات یقال للنادم المتحیر قد سقط فی یدہ ” (قرطبی ج 7 ص 285) ۔ قوم کے نادم ہونے کا واقعہ اصل میں اس وقت پیش آیا جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے گوسالہ کو جلا کر اس کی راکھ اڑا دی اس واقعے کی اصل ترتیب سورة طٰہٰ میں اس طرح مذکور ہے۔ میقات سے واپسی پر سب سے پہلے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے قوم سے خطاب کر کے ان کو ملامت کی۔ “ فَرَجَعَ مُوْسٰی اِلٰی قَوْمِهٖ غَضْبَانَ اَسِفًا۔ قَالَ یٰقَوْمِ اَ لَمْ یَعِدْکُمْ رَبُّکُمْ الخ ”(طٰہٰ رکوع 4) ۔ قوم کا جواب سننے کے بعد آپ ہارون (علیہ السلام) کی طرف متوجہ ہوئے۔ “ قَالَ یٰھٰرُوْنُ مَامَنَعَکَ الخ ” (طٰہٰ رکوع 5) ۔ حضرت ہارون (علیہ السلام) سے حقیقت حال معلوم کرنے کے بعد سامری سے خطاب کر کے فرمایا “ مَا خَطْبُکَ یٰسَامِرِيُّ الخ ”(طٰہٰ رکوع 5) اسکے بعد قوم کے سامنے گوسالے کو جلا دیا تو ان پر اپنی غلطی کھلی کہ انہوں نے شرک کر کے بڑا ظلم کیا اور نادم ہوئے۔ لہذا یہاں “ وَلَمَّا سُقِطَ ” میں واؤ مطلق جمع کے لیے ہے۔
Top