Tafseer-e-Mazhari - Al-A'raaf : 149
وَ لَمَّا سُقِطَ فِیْۤ اَیْدِیْهِمْ وَ رَاَوْا اَنَّهُمْ قَدْ ضَلُّوْا١ۙ قَالُوْا لَئِنْ لَّمْ یَرْحَمْنَا رَبُّنَا وَ یَغْفِرْ لَنَا لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ
وَ : اور لَمَّا : جب سُقِطَ فِيْٓ اَيْدِيْهِمْ : گرے اپنے ہاتھوں میں (نادم ہوئے) وَرَاَوْا : اور دیکھا انہوں نے اَنَّهُمْ : کہ وہ قَدْ ضَلُّوْا : تحقیق گمراہ ہوگئے قَالُوْا : وہ کہنے لگے لَئِنْ : اگر لَّمْ يَرْحَمْنَا : رحم نہ کیا ہم پر رَبُّنَا : ہمارا رب وَيَغْفِرْ لَنَا : اور (نہ) بخش دیا لَنَكُوْنَنَّ : ضرور ہوجائیں گے مِنَ : سے الْخٰسِرِيْنَ : خسارہ پانے والے
اور جب وہ نادم ہوئے اور دیکھا کہ گمراہ ہوگئے ہیں تو کہنے لگے کہ اگر ہمارا پروردگار ہم پر رحم نہیں کرے گا اور ہم کو معاف نہیں فرمائے گا تو ہم برباد ہوجائیں گے
ولما سقط فی ایدیہم ورأوا انہم قد ضلوا قالوا لئن لم یرحمنا ربنا ویغفرلنا لنکونن من الخسرین۔ اور جب وہ نادم ہوگئے اور جان گئے کہ واقعی ہم گمراہی میں پڑگئے تو کہنے لگے اگر ہمارا رب ہم پر رحم نہ کرے اور ہم کو معاف نہ کرے تو ہم بالکل گئے گزرے ہوگئے۔ سقط فی ایدیہم سقط فعل مجہول کی اسناد فی ایدیہم کی طرف سے ہے بطور کنایہ سخت پشیمانی مراد ہے پشیمان آدمی افسوس سے ہاتھ کاٹتا ہے گویا اس کا ہاتھ اس کے اندر گرا دیا جاتا ہے عرب لوگ ہر پشیمان کو سقط فی یدہ کہتے ہیں۔ زجاج نے کہا ایدیہم سے مراد ہیں دل اور نفوس یعنی ندامت ان کے دلوں میں پیدا ہوگئی۔ حصلِ فِی یدہ مکروہٌاس کے ہاتھ میں یعنی دل میں بری بات پیدا ہوگئی اگرچہ ہاتھ میں مکروہ کا پیدا ہونا ناممکن ہے (برا خیال دل میں ہی پیدا ہوتا ہے) مگر دل اور نفس کے اندر پیدا ہونے والی جو چیز پکڑی اور دیکھی ہوئی چیز کی طرح مان کر حصل فی یدہ مکروہ کہا جاتا ہے (گویا بطور تشبیہ غیر محسوس کو محسوس خارجی قرار دے دیا جاتا ہے) حاصل مطلب یہ ہے کہ حضرت موسیٰ نے واپس آکر جب ان پر عتاب کیا تو ان کو پشیمانی ہوگئی اور جان گئے کہ بچھڑے کو معبود بنا کر ہم گمراہ ہوگئے اور توبہ کی اور کہا کہ ہمارا رب اگر ہماری توبہ قبول کر کے ہم پر رحم نہ فرمائے گا اور ہمارے قصور سے درگزر کر کے معافی نہ دے گا تو ہم بڑے گھاٹے میں ہوں گے۔
Top