Taiseer-ul-Quran - Al-A'raaf : 149
وَ لَمَّا سُقِطَ فِیْۤ اَیْدِیْهِمْ وَ رَاَوْا اَنَّهُمْ قَدْ ضَلُّوْا١ۙ قَالُوْا لَئِنْ لَّمْ یَرْحَمْنَا رَبُّنَا وَ یَغْفِرْ لَنَا لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ
وَ : اور لَمَّا : جب سُقِطَ فِيْٓ اَيْدِيْهِمْ : گرے اپنے ہاتھوں میں (نادم ہوئے) وَرَاَوْا : اور دیکھا انہوں نے اَنَّهُمْ : کہ وہ قَدْ ضَلُّوْا : تحقیق گمراہ ہوگئے قَالُوْا : وہ کہنے لگے لَئِنْ : اگر لَّمْ يَرْحَمْنَا : رحم نہ کیا ہم پر رَبُّنَا : ہمارا رب وَيَغْفِرْ لَنَا : اور (نہ) بخش دیا لَنَكُوْنَنَّ : ضرور ہوجائیں گے مِنَ : سے الْخٰسِرِيْنَ : خسارہ پانے والے
اور وہ تھے ہی بےانصاف لوگ (145) اور جب وہ شرمسار ہوئے اور دیکھا کہ وہ گمراہ ہوگئے ہیں تو کہنے لگے اگر ہمارے پروردگار نے ہم پر رحم نہ کیا اور ہمیں 146 معاف نہ کیا تو ہم برباد ہوجائیں گے
145 حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی عدم موجودگی میں بنی اسرائیل کی گؤسالہ پرستی :۔ موسیٰ (علیہ السلام) تو اللہ تعالیٰ کے مقررہ وعدہ اور وقت کے مطابق کوہ طور پر چلے گئے، اور بنی اسرائیل کی قیادت سیدنا ہارون (علیہ السلام) کے سپرد کر کے یہ تاکید کردی تھی کہ یہ بگڑی ہوئی قوم ہے۔ ان کی اصلاح کے لیے خصوصی دھیان رکھنا اور یہ بات موسیٰ (علیہ السلام) نے اس وجہ سے کہی تھی کہ ایک مرتبہ پہلے وہ سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) سے کہہ چکے تھے کہ ہمیں بھی ایک معبود بنا دیجئے اور موسیٰ (علیہ السلام) نے انہیں سرزنش بھی کی تھی حالانکہ انہیں ایمان لائے کافی مدت گزر چکی تھی دوسری بات یہ تھی کہ سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) خود جلالی طبیعت کے مالک اور رعب داب رکھنے والے پیغمبر تھے اور اس بگڑی ہوئی قوم پر انہیں کنٹرول رکھنے کا سلیقہ آتا تھا ان کے مقابلہ میں ہارون (علیہ السلام) اگرچہ ان کے حقیقی بھائی اور عمر میں بھی تین سال بڑے تھے تاہم نرم طبیعت انسان تھے انہیں سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) اپنا قائم مقام بنا کر جا رہے تھے ان حالات میں موسیٰ (علیہ السلام) کے دل میں جو خدشہ تھا بالکل بجا تھا اور انہی وجوہ کی بنا پر آپ نے پر زور تاکید کی تھی۔ چناچہ وہی کچھ ہوا جس کا خطرہ تھا۔ بنی اسرائیل نے سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کی عدم موجودگی کو غنیمت جانا اور جس کام کی خواہش ان کے دلوں میں رہ رہ کر انگڑائیاں لے رہی تھی وہ انہوں نے پوری کرلی۔ ایک بچھڑا بنایا اور اس کی پرستش شروع کردی اس بچھڑے کو سامری نے بنایا اپنے جیسے گؤ سالہ پرستی کی خواہش رکھنے والے لوگوں سے سونے کے زیورات اکٹھے کیے اور انہیں پگھلا کر سونے کے بچھڑنے کا پتلا بنادیا اور اس کی پوجا پاٹ کرنے لگے ہرچند سیدنا ہارون (علیہ السلام) نے انہیں منع کیا مگر وہ ان سے کہاں باز آنے والے تھے ؟۔ سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) تو ان کے لیے ایسے احکام و ہدایات لانے کے لیے گئے تھے جس سے ان کی دنیا اور آخرت دونوں سنور جائیں مگر ان عقل کے اندھوں کو اتنی بھی سمجھ نہ آئی جو معبود انہوں نے گھڑ لیا ہے وہ جب کوئی بات ہی نہیں کرتا تو ان کی رہنمائی کیا کرے گا اس کے باوجود انہوں نے اسے معبود قرار دے لیا تو اس سے بڑھ کر بھی کوئی بےانصافی، ظلم اور شرک کی بات ہوسکتی ہے ؟ 146 وہ لوگ کب شرمسار ہوئے اور اللہ نے ان کی توبہ کس شرط پر قبول کی، اس کی تفصیل سورة بقرہ کی آیت نمبر 54 میں گزر چکی ہے۔
Top