Kashf-ur-Rahman - Al-Hajj : 41
اَلَّذِیْنَ اِنْ مَّكَّنّٰهُمْ فِی الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتَوُا الزَّكٰوةَ وَ اَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَ نَهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ١ؕ وَ لِلّٰهِ عَاقِبَةُ الْاُمُوْرِ
اَلَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اِنْ : اگر مَّكَّنّٰهُمْ : ہم دسترس دیں انہیں فِي الْاَرْضِ : زمین میں اَقَامُوا : وہ قائم کریں الصَّلٰوةَ : نماز وَاٰتَوُا : اور ادا کریں الزَّكٰوةَ : زکوۃ وَاَمَرُوْا : اور حکم دیں بِالْمَعْرُوْفِ : نیک کاموں کا وَنَهَوْا : اور وہ روکیں عَنِ الْمُنْكَرِ : برائی سے وَلِلّٰهِ : اور اللہ کیلئے عَاقِبَةُ : انجام کار الْاُمُوْرِ : تمام کام
یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم ان کو ملک میں بااختیار کردیں تو یہ لوگ نماز کی پابندی کریں اور زکوٰۃ ادا کریں اور بھلے کام کرنے کا حکم دیں اور برے کام کرنے سے لوگوں کو روکیں اور ہر کام کا انجام اللہ ہی کے اختیار میں ہے
(41) یہ وہ مظلوم لوگ ہیں کہ اگر ہم ان کو ملک میں ذی اقتدار اور بااختیار کردیں تو یہ لوگ نماز کی پابندی کریں اور زکوٰۃ ادا کریں اور لوگوں کو نیک کام کرنے کا حکم دیں اور بری باتوں سے منع کریں اور تمام کاموں کا انجام اللہ تعالیٰ ہی کے اختیار میں ہے یعنی اگر مسلمان اور اہل حق کو غلبہ حاصل ہوجائے تو وہ خود بھی نمازوں کی پابندی کریں اور زکوٰۃ دیں اور دوسروں کو بھی نیکی کا حکم دیں اور بدی سے بچائیں۔ چنانچہ یہ بات پوری ہوئی۔ آیت سے صحابہ ؓ اور مہاجرین و انصار اور حضرات خلفاء راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین کی صداقت و حقانیت ثابت ہے۔ آیت کے آخری حصہ کے دو معنی بیان کئے گئے ہیں یا تو یہ مطلب ہے کہ اگرچہ مسلمان آج کمزور ہیں اور کافر غالب ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کے قبضے میں ہے کہ مسلمانوں کو غالب اور منصور کردے اور کفار کمزور ہوجائیں۔ یا جو حضرت شاہ صاحب (رح) نے فرمایا مطلب یہ ہو یعنی یہ امت دین قائم کریں گے۔ ایک مدت آخر اللہ ہی جانے۔ 12 ۔ چونکہ کفار جو نبی کریم ﷺ سے جھگڑا کرتے تھے جیسا کہ سورت کی ابتداء میں ذکر ہوا اس جھگڑے سے محض آپ کی تکذیب تھی۔ اس لئے آگے پیغمبر اسلام ﷺ کی تسلی فرماتے ہیں۔
Top