Tafseer-e-Madani - Al-Hajj : 41
اَلَّذِیْنَ اِنْ مَّكَّنّٰهُمْ فِی الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتَوُا الزَّكٰوةَ وَ اَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَ نَهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ١ؕ وَ لِلّٰهِ عَاقِبَةُ الْاُمُوْرِ
اَلَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اِنْ : اگر مَّكَّنّٰهُمْ : ہم دسترس دیں انہیں فِي الْاَرْضِ : زمین میں اَقَامُوا : وہ قائم کریں الصَّلٰوةَ : نماز وَاٰتَوُا : اور ادا کریں الزَّكٰوةَ : زکوۃ وَاَمَرُوْا : اور حکم دیں بِالْمَعْرُوْفِ : نیک کاموں کا وَنَهَوْا : اور وہ روکیں عَنِ الْمُنْكَرِ : برائی سے وَلِلّٰهِ : اور اللہ کیلئے عَاقِبَةُ : انجام کار الْاُمُوْرِ : تمام کام
یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم ان کو زمین میں اقتدار بخشیں تو یہ قائم کریں گے نماز کو اور ادا کریں گے زکوٰۃ کو اور حکم دیں گے نیکی کا اور روکیں گے برائی سے اور اللہ ہی کے اختیار میں ہے سب کاموں کا انجام
87 فریضہ نماز کی عظمت و اہمیت : سو اس سے معلوم ہوا کہ فریضہ ٔ نماز سب سے اہم فریضہ اور اولین عبادت ہے، اسی لیے زمین میں اقتدار ملنے کے بعد سب سے پہلی ذمہ داری اسی کے بارے میں عائد ہوتی ہے، اور یہ اللہ پاک کا ارشاد فرمودہ اور عائد کردہ ایک ایسا عظیم الشان فریضہ ہے جو کہ ایمان لانے کے بعد ایک مومن پر سب سے پہلے عائد ہوتا ہے، اور اس کی محافظت مومن کی اولین ذمہ داری، اور اس کے عقیدہ و ایمان کا بنیادی تقاضا ہے، اسی لئے حضرت عمر ؓ نے منصب خلافت سنبھالنے کے بعد اپنے ولاۃ امور کو اس کی تاکید کرتے ہوئے ارشاد فرمایا تھا، اَلَا اِنَّ اَہَمَّ اُمُوْرِکُمْ عِنْدِیْ الصَّلٰوۃُ فَمَنْ حَافَظَ عَلَیْہَا فَہُوَ لَغَیْرِہَا اَحْفَظُ وَمَنْ ضَیَّعَہَا فَہُوَ لِغَیْرَہَا اَضْیَعَ ، نیز یہی وہ عبادت ہے جس میں انسان اپنے ظاہر و باطن کے اعتبار سے اور اپنے جسم و جان اور قلب و زبان سب کے ساتھ، اپنے رب کی عبادت و بندگی میں مشغول ہوتا ہے، اور اسی سے اس کو اس کی نصرت و امداد خداوندی نصیب ہوتی ہے، اور اسی سے اس کا اپنے خالق و املک کے ساتھ صحیح تعلق اور رابطہ قائم ہوتا ہے، جو کہ اولین اساس و بنیاد ہے، فرد و معاشرے کی اصلاح، اور دارین کی فوز و فلاح کی، اس آیت کریمہ کو حضرات علماء کرام آیت تمکین کہتے ہیں کہ اس میں حضرات صحابہ کرام ؓ سے تمکین فی الارض کا وعدہ فرمایا گیا ہے، اور اس میں خلافت راشدہ کی طرف اشارہ ہے، (معارف وغیرہ) 88 فریضہ زکوٰۃ کی عظمت و اہمیت : سو ارشاد فرمایا گیا کہ زمین میں اقتدار حاصل کرنے کے بعد وہ ادائیگی زکاۃ کا اہتمام کریں جس سے ایک طرف تو مال والوں کے مال پاک ہوں گے، اور دوسری طرف ان کے دل پاک و صاف ہوں گے دنیا کی محبت سے، جو کہ جڑ ہے ہر فساد کی، والعیاذ باللہ، اور تیسری طرف اس سے پورا معاشرہ پاک ہوگا حسد اور عداوت وغیرہ کی بیماریوں سے، نیز اس سے صحتمند معاشرے کی تشکیل و تکمیل میں مدد ملے گی، اور مال جو ملت کے اجتماعی وجود کیلئے خون اور مایہ الحباۃ کی حیثیت رکھتا ہے وہ صحیح طور سے تقسیم ہوگا، چند ہاتھوں میں مرکوز ہو کر نہیں رہ جائے گا اور اس کا فائدہ سب ہی کو پہنچے گا، اور غریبوں کی وہ دعائیں امیروں کو ملیں گی، اور ان کی دلی ہمدردیاں ان کے ساتھ ہونگی، سو فریضہ زکوٰۃ ایک اہم فریضہ ہے اور جیسے بدنی عبادتوں میں فریضہ نماز سب سے اہم فریضہ ہے، اسی طرح مالی عبادتوں میں فریضہ زکوٰۃ سب سے اہم ہے،۔ اس لیے اسلامی حکومت کو ان دونوں فریضوں کا اہتمام کرنا اس کی اولین اور سب سے اہم ذمہ داری ہی اور اسی میں صلاح و فلاح ہے فرد و معاشرہ اور دنیا و آخرت دونوں کی ۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید وعلی ما یحب ویرید بکل حال من الاحوال - 89 امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی عظمت و اہمیت : سو ارشاد فرمایا گیا کہ وہ حکم دیں گے نیکی کا اور روکیں گے برائی سے۔ تاکہ اس طرح پورا معاشرہ برائیوں سے پاک، اور امن و سکون کا گوہارہ بن جائے، سو ان خوبیوں کے حامل اقتدار پانے والے حضرات کا اولیں مصداق حضرات مہاجرین و انصار ہیں، اور پھر ان کی اتباع و پیروی کرنیوالے وہ تمام حضرات جو وَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْہُمْ بِاِحْسَانٍ کے زمرے میں آتے ہیں، کما روی ذالک عن ابن عباس وغیرہ، پس یہ آیت کریمہ خلافت راشدہ کی صحت اور حقانیت کی دلیل ہے، کہ یہ چاروں حضرات مہاجرین اولین میں سے تھے، اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدہ کے مطابق ان کو زمین میں تمکین نصیب فرمائی، اور وہ چاروں ان چاروں صفات کے ساتھ بدرجہ تمام و کمال موصوف تھے، سو یہ آیت کریمہ چاروں خلفاء کرام کی خلافت کے حق ہونے کی دلیل ہے، (معارف وغیرہ) اور معروف و منکر وہی ہیں جن کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے معروف و منکر قرار دیا اور کس کو یہ حق نہیں پہنچ سکتا کہ وہ اپنی طرف سے ان میں کوئی تغییر و تبدیلی کرے۔ 90 سب کچھ اللہ ہی کے قبضہ قدرت واختیار میں : سو ارشاد فرمایا گیا اور اللہ ہی کے اختیار میں ہیں سب امور کہ اس دنیا میں جو بھی کچھ ہوتا ہے اسی وحدہ لاشریک کے اذن و حکم سے ہوتا ہے، اور آخرت میں بھی سب امور کا رجوع اسی کی طرف ہوگا، تاکہ وہ ان کے بارے میں آخری اور عملی فیصلہ صادر فرمائے، تاکہ ہر کوئی اپنے زندگی بھر کے کئے کرائے کا پورا پورا بدلہ پا سکے، سو ہوتا سب کچھ اللہ پاک ہی کے حکم و ارشاد سے ہے، بندے کا عمل دخل اس کے اپنے ارادہ و اختیار سے ہے، اگر اس نے نیت صحیح رکھی اور ارادہ نیک ہوا تو وہ نیکی کی توفیق اور اس کی سعادت سے سرفراز ہوگا، اور اگر نیت بری رکھی تو برے انجام سے دو چار ہوگا اور خود اپنا ہی نقصان کرے گا، والعیاذ باللہ پس انسان کو چاہیئے کہ وہ محنت تو اپنی طرف سے بہرحال کرے، اور اپنی ہمت و بساط کے مطابق پوری کرے لیکن بھروسہ و اعتماد ہمیشہ اللہ تعالیٰ ہی پر رکھے، کہ ہوگا وہی جو اس وحدہ لاشریک کو منظور ہوگا کہ سب امور کا رجوع اسی کی طرف ہے، اور سب کچھ اسی کے قبضہ قدرت و اختیار میں ہے، سبحانہ و تعالیٰ ۔ اللہ جو چاہے اور جیسا چاہے کرے۔ پس مومن صادق کا کام یہ ہے کہ وہ اپنے اس خالق ومالک کے ساتھ اپنا تعلق صحیح رکھے اور دل کا بھروسہ ہمیشہ اسی پر رکھے اور اس کی رضا و خوشنودی کے حصول کے مقصد کو سب سے مقدم رکھے ۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید وعلی ما یحب ویرید وہو الہادی الی سواء السبیل -
Top