Maarif-ul-Quran - Al-Hajj : 41
اَلَّذِیْنَ اِنْ مَّكَّنّٰهُمْ فِی الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتَوُا الزَّكٰوةَ وَ اَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَ نَهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ١ؕ وَ لِلّٰهِ عَاقِبَةُ الْاُمُوْرِ
اَلَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اِنْ : اگر مَّكَّنّٰهُمْ : ہم دسترس دیں انہیں فِي الْاَرْضِ : زمین میں اَقَامُوا : وہ قائم کریں الصَّلٰوةَ : نماز وَاٰتَوُا : اور ادا کریں الزَّكٰوةَ : زکوۃ وَاَمَرُوْا : اور حکم دیں بِالْمَعْرُوْفِ : نیک کاموں کا وَنَهَوْا : اور وہ روکیں عَنِ الْمُنْكَرِ : برائی سے وَلِلّٰهِ : اور اللہ کیلئے عَاقِبَةُ : انجام کار الْاُمُوْرِ : تمام کام
وہ لوگ کہ اگر ہم ان کو قدرت دیں ملک میں تو وہ قائم رکھیں نماز اور دیں زکوٰة اور حکم کریں بھلے کام کا اور منع کریں برائی سے اور اللہ کے اختیار میں ہے آخر ہر کام کا۔
خلفائے راشدین کے حق میں قرآن کی پیشین گوئی اور اس کا ظہور
اَلَّذِيْنَ اِنْ مَّكَّنّٰهُمْ فِي الْاَرْضِ ، اس آیت میں الذین صفت ہے ان لوگوں کی جن کا ذکر اس سے پہلے آیت میں ان الفاظ سے آیا ہے الَّذِيْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِيَارِهِمْ بِغَيْرِ حَقٍّ ، یعنی وہ لوگ جن کو ان کے گھروں سے ظلماً بغیر کسی حق کے نکال دیا گیا۔ ان لوگوں کے بارے میں اس آیت میں یہ فرمایا گیا ہے کہ یہ ایسے لوگ ہیں کہ اگر ان کو زمین میں حکومت و اقتدار دے دیا جائے تو یہ لوگ اپنے اقتدار کو ان کاموں میں صرف کریں گے کہ نمازیں قائم کریں اور زکوٰة ادا کریں اور نیک کاموں کی طرف لوگوں کو دعوت دیں برے کاموں سے روکیں۔ اور یہ اوپر معلوم ہوچکا ہے کہ یہ آیات ہجرت مدینہ کے فوراً بعد اس وقت نازل ہوئی ہیں جبکہ مسلمانوں کو کسی بھی زمین میں حکومت و اقتدار حاصل نہیں تھا مگر حق تعالیٰ نے ان کے بارے میں پہلے ہی یہ خبر دے دی کہ جب ان کو اقتدار حکومت ملے گا تو یہ دین کی مذکورہ اہم خدمات انجام دیں گے اسی لئے حضرت عثمان غنی نے فرمایا ثناء قبل بلاء، یعنی اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد عمل کے وجود میں آنے سے پہلے اس کے عمل کرنے والوں کی مدح وثناء ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ کی اس خبر کا جس کا وقوع یقینی تھا اس دنیا میں وقوع اس طرح ہوا کہ چاروں خلفائے راشدین اور مہاجرین الَّذِيْنَ اُخْرِجُوْا کے مصداق صحیح تھے پھر اللہ تعالیٰ نے انہیں کو سب سے پہلے زمین کی مکنت وقدرت یعنی حکومت و سلطنت عطا فرمائی اور قرآن کی پیشین گوئی کے مطابق ان کے اعمال و کردار اور کارناموں نے دنیا کو دکھلا دیا کہ انہوں نے اپنے اقتدار کو اسی کام میں استعمال کیا کہ نمازیں قائم کیں زکوٰة کا نظام مضبوط کیا اچھے کاموں کو رواج دیا برے کاموں کا راستہ بند کیا۔
اسی لئے علماء نے فرمایا کہ یہ آیت اس کی دلیل ہے کہ خلفاء راشدین سب کے سب اسی بشارت کے مصداق ہیں اور جو نظام خلافت ان کے زمانے میں قائم ہوا وہ حق و صحیح اور عین اللہ تعالیٰ کے ارادے اور رضا اور پیشگی خبر کے مطابق ہے (روح المعانی)
یہ تو اس آیت کے شان نزول کا واقعاتی پہلو ہے لیکن یہ ظاہر ہے کہ الفاظ قرآن جب عام ہوں تو وہ کسی خاص واقعہ میں منحصر نہیں ہوتے ان کا حکم عام ہوتا ہے۔ اسی لئے ائمہ تفسیر میں سے ضحاک نے فرمایا کہ اس آیت میں ان لوگوں کے لئے ہدایت بھی ہے جن کو اللہ تعالیٰ ملک و سلطنت عطا فرما دیں کہ وہ اپنے اقتدار میں یہ کام انجام دیں جو خلفاء راشدین نے اپنے وقت میں انجام دیئے تھے۔ (قرطبی مع توضیح)
Top