Kashf-ur-Rahman - Aal-i-Imraan : 171
یَسْتَبْشِرُوْنَ بِنِعْمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ فَضْلٍ١ۙ وَّ اَنَّ اللّٰهَ لَا یُضِیْعُ اَجْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ٤ۚۛ۠   ۧ
يَسْتَبْشِرُوْنَ : وہ خوشیاں منا رہے ہیں بِنِعْمَةٍ : نعمت سے مِّنَ : سے اللّٰهِ : اللہ وَفَضْلٍ : اور فضل وَّاَنَّ : اور یہ کہ اللّٰهَ : اللہ لَا يُضِيْعُ : ضائع نہیں کرتا اَجْرَ : اجر الْمُؤْمِنِيْنَ : ایمان والے
یعنی اگر شہید ہو کر آجائیں وہ اللہ تعالیٰ کے احسان اور اس کے فضل کی وجہ سے خوش و خرم رہتے ہیں اور نیز اس بنا پر کہ اللہ تعالیٰ اہل ایمان کے ثواب کو ضائع نہیں کرتا ۔1
1 اور اپنے مخاطب جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کئے گئے تو ان کو دوسرے مردوں کی طرح مردہ نہ سمجھ بلکہ وہ تو ایک قسم کی زندگی کے ساتھ زندہ ہیں اور اپنے پروردگار کے مقرب اور اس کے ہاں مقبول ہیں اور ان کو روزی دی جاتی ہے اور ان کو رزق ملتا ہے اور جو کچھ اللہ تعالیٰ اپنی نعمت اور اپنے فضل و کرم سے عطا فرمایا ہے وہ اس سے خوب خوش و خرم ہیں اور اس کی وجہ سے بہت مگن ہیں اور جس طرح وہ اپنی حالت پر مگن ہیں اسیطرح ان لوگوں کے متعلق بھی خوش اور مطمئن اور پر امید ہیں جو دنیا میں ابھی زندہ ہونے کی وجہ سے ان کے پیچھے رہ گئے ہیں اور ابھی ان تک نہیں پہنچے اور ان سے ملے نہیں کہ اگر وہ بھی ہماری طرح شہید ہو کر یہاں آئے تو نہ ان کو کوئی خوف پیش آئے گا اور نہ وہ کسی طرح غمگین ہوں گے یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی نعمت اور اس کے فضل و کرم کی وجہ سے خوش ہوتے ہیں اور نیز اس وجہ سے خوش ہوتے ہیں کہ اللہ ت عالیٰ اہل ایمان کے اعمال کا اجر وثواب ضائع نہیں کیا کرتا۔ (تیسیر) ان آیتوں کا تعلق یا تو شہداء احد سے ہے اور یا شہداء بیر معونہ سے ہے جن کو عامر بن طفیل کی جماعت نے شہید کیا تھا اور وہ سب کے سب قرآن کے قاری تھے کافر ان کو قرآنی تعلیم کی غرض سے لے گئے تھے اور راستے میں ان کو شہید کر ڈالا ان لوگوں کے متعلق بعض اور آیات بھی چند روز کے لئے نازل ہوئی تھیں جو بعد میں اٹھا لی گئیں کیونکہ مسلمان ان کے جبراً قتل سے بڑے متاثر تھے اس لئے ان کے متعلق کوئی آیت نازل ہوئی تھی جو چند دن کے بعد منسوخ ہوگئی۔ بہرحال جہاد میں جو لوگ قتل کردیئے جاتے ہیں اور میدان کار زار میں جو حضرات شہید ہ جاتے ہیں ان کے متعلق عوام کے خیالات کی اصلاح مقصود ہے اور منافقوں کو اور کافروں کو یہ بات بتانی ہے کہ وہ لوگ بڑے مرتبے کے ہیں تم ان کی موت کو حقیر اور معمولی موت سمجھتے ہو حالانکہ وہ زندہ ہیں اور ایک خاص قسم کی زندگی ان کو میرس ہے اگرچہ اس زندگی کی کیفیت زندوں کی سمجھ میں نہ آئے۔ لاتحسبن کا خطاب عام ہے اور جو خطاب کی صلاحیت رکھتا ہو وہ مخاطب ہے اور ہوسکتا ہے کہ نبی کریم ﷺ کے ساتھ یہ خطاب خاص ہو مگر ہم نے پہلا قول اختیار کیا ہے۔ عند ربھم سے مراد مرتبہ کا قرب اور ان کی مقبولیت ہے حدیث شریف میں آتا ہے۔ شہداء کی ارواح سبز رنگ کے یا سفید رنگ کے پرندوں کے پیٹ میں رہتی ہیں اور جنت کی نعمتوں سے متمتع ہوتی ہیں۔ جنت میں جہاں چاہتی ہیں جاتی آتی ہیں۔ شام کو ان کی ارواح عرش الٰہی کے نیچے قندیلوں میں آ کر بسیرا کرتی ہیں اور چونکہ شہداء کے بھی مختلف درجات ہیں اس لئے ہوسکتا ہے کہ بعض کی ارواح جنت میں جاتی ہوں اور بعض اس نہر پر رہتی ہوں جو جنت کے دروازے کے باہر ہے اور وہاں ان کو ان کا رزق پہونچا جاتا ہو۔ فرحین کا مطلب یہ ہے کہ وہ انتہائی خوشی میں ہیں اس انعام کے سبب جو اللہ نے ان پر کیا ہے اور اس سے بڑھ کر اور کیا فضل ہوگا کہ انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام سے کم اور تمام مسلمانوں سے زائد ان کی ارواح کو سرور اور لذت حاصل ہے پھر اس خوشی کے علاوہ اپنے ان مخلص ساتھیوں کی طرف سے بھی مطمئن ہیں جو ابھی تک شہید ہو کر ان تک نہیں پہنچے اور یہ اطمینان اس بنا پر ہے کہ جو بشارتیں سنا کرتے تھے ان سے خود سود مند ہو رہے ہیں اس لئے پر امید ہیں کہ ساتھی بھی شہید ہوں گے تو وہ بھی ہر قسم کے خوف اور ہر قسم کے غم سے مامون ہوں گے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ لم یلحق و ابھم سے شہید اور غیر شہید دونوں قسم کے مخلص مسلمان مراند ہوں اور مطلب یہ ہو کہ جو مسلمان ہمارے پیچھے رہ گئے ہیں اور ابھی نہیں آئے وہ اگر شہید ہو کر آئیں گے تب تو ہمارے ساتھمل ہی جائیں گے اور اگر اپنی موت سے بھی مر کر آئے اور ایمان و خلوص لے کر آئے تب بھی ہر قسم کے خوف اور حزن سے مامون ہوں گے۔ خلاصہ یہ کہ وہ ان دو قسم کی خوشیوں سے لذت اندوز ہو رہے ہیں ایک تو یہ کہ خود عیش میں ہیں اور آزادی کے ساتھ سبز پرندوں کے پوٹوں میں ہر جگہ کی سیر کرتے پھرتے ہیں دوسرے یہ کہ پیچھے آینوالوں کی طرف سے مطمئن اور مسرور ہیں کہ وہ آجائیں گے تو ان کو بھی ایک خاص پر لطف زندگی میسر ہوجائے گی اگر شہید ہو کر آئے تو سبحان اللہ ! اور اگر شہید نہ ہوئے خلوص و ایمان کے ساتھ آئے تو بھی مامون زند گی کے وارث بنا دیئے جائیں گے ۔ آخر میں ان دونوں خوشیوں کا سبب صراحتہ فرمایا کہ وہ خوش ہیں ایک تو اس سبب سے کہ وہ خود اچھی حالت میں ہیں اور دوسرے اس سبب سے کہ وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کسی اہل ایمان کے اعمال کا اجر ضائع نہیں فرماتا بلکہ جو مسلمان جس مرتبہ کا عمل لے کر آتا ہے اس کو اس کے مرتبہ کے موافق درجہ اور ثواب عنایت فرماتا ہے اس مسرت و شادمانی سے بڑھ کر اور کیا مسرت ہوسکتی ہے کہ کوئی شخص خود اپنی جانب سے اور اپنے متعلقین کی جانب سے مطمئن اور پر امید ہو تنبیہ شہدا کے متعلق ہم مفصل بحث دوسرے پارے کے تیسرے رکوع میں کرچکے ہیں اور وہاں بتا چکے ہیں کہ عام برزخ کی زندگی ہر شخص کے ادراک میں نہیں آسکتی لیکن یہ یقینی ہے کہ مرنے کے بعد زندگی ضرور اور یہ بھی ظاہر ہے کہ اس عالم کی زندگی کے مختلف مدارج ہیں ایک انبیآ کی زندگی ہے ایک وہ زندگی ہے جو شہداء کو حاصل ہے ایک وہ زندگی ہے جو علماء کو حاصل ہے ایک وہ زندگی ہے جو حافظ قرآن کو حاصل ہے اسی طرح درجہ بدرجہ ہے۔ انبیاء کی زندگی اتنی قوی ہے کہ اس کا اثر اس عالم میں بھی پایا جاتا ہے مثلاً ان کی بیویوں سے نکاح نہ کرنا۔ ان کے ورثہ کا تقسیم نہ ہونا ان کے جسم کا قبر میں محفوظ رہنا (ان کی ارواح کا جسم کے ساتھ قائم رہنا) قبر پر جا کر سلام کرنے والے کے سلام کو سننا اور اس کا جواب دینا شہداء کی زندگی ان سے کم درجہ کی ہے مثلاً ان کے عمل کا بڑھتے رہنا ، عالم برزخ میں ان کی ارواح کا عرش الٰہی کے نیچے رہنا ان کو جنت کا رزق پہنچنا اللہ تعالیٰ کا ان سے دریافت کرنا کہ تم کیا چاہتے ہو اور ان کا یہ کہنا کہ ہم کو دنیا میں پھر بھیج دیتا کہ تیرے دین کی خدمت کرتے ہوئے پھر شہید ہوں اور اللہ تعالیٰ کا یہ فرمانا کہ مرنے کے بعد کسی کو واپس بھیجنا ہمارے فیصل شدہ امر کے خلاف ہے پھر ان کے جسم کو زمین کا نہ کھانا اور قبر میں سلامت رہنا۔ احادیث میں اس زندگی کو جن الفاظ سے تعبیر کیا ہے اس کی حقیقت کو سمجھنا بھی عوام کے ادراک سے خارج ہے ۔ البتہ نفوس قدسیہ اور اہل سلوک حضرات اس زندگی کو سمجھتے ہوں تو سمجھتے ہوں۔ لم یلحقوا بھم من خلضھم سے اکثر مفسرین نے مجاہدین کو مراد لیا ہے اس لئے ہم نے ترجمے میں وہ مشہور قول اختیار کیا ہے لیکن بعض حضرات نے مجاہدین اور عام مخلصین دونوں مراد لئے ہیں ہم نے تیسیر اور تسہیل میں دونوں تفسیروں کی رعایت رکھی ہے۔ (واللہ اعلم) حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں شہیدوں کو مرنے کے بعد ایک طرح کی زندگی ہے کہ اور مردوں کو نہیں۔ کھانا پینا اور عیش اور خوشی پوری ہے اوروں کو قیامت کے بعد ہوگی۔ (موضح القرآن) اب آگے غزوہ بدر صغریٰ اور غزوئہ حمر الاسد کا ذکر ہے چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ (تسہیل)
Top