Al-Qurtubi - Aal-i-Imraan : 171
یَسْتَبْشِرُوْنَ بِنِعْمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ فَضْلٍ١ۙ وَّ اَنَّ اللّٰهَ لَا یُضِیْعُ اَجْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ٤ۚۛ۠   ۧ
يَسْتَبْشِرُوْنَ : وہ خوشیاں منا رہے ہیں بِنِعْمَةٍ : نعمت سے مِّنَ : سے اللّٰهِ : اللہ وَفَضْلٍ : اور فضل وَّاَنَّ : اور یہ کہ اللّٰهَ : اللہ لَا يُضِيْعُ : ضائع نہیں کرتا اَجْرَ : اجر الْمُؤْمِنِيْنَ : ایمان والے
اور خدا کے انعامات اور فضل سے خوش ہو رہے ہیں اور اس سے کہ خدا مومنوں کا اجر ضائع نہیں کرتا
آیت نمبر : 171۔ یعنی وہ خوش ہو رہے ہیں اللہ تعالیٰ کی جانب سے جنت پر، اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے مغفرت (کے حصول) پر (خوش ہو رہے ہیں) وفضل “ یہ بیان کی زیادتی کے لئے ہے اور فضل بھی نعمت میں داخل ہے، اور اس میں اس (نعمت) کے وسیع ہونے دلیل ہے اور یہ کہ وہ نعمت دنیا کی نعمتوں کی طرح نہیں ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ نعمت کے بعد فضل کا ذکر بطور تاکید ہوا ہے، ترمذی نے حضرت مقدام بن معدیکرب ؓ سے روایت بیان کی ہے انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمای : ” اللہ تعالیٰ کے نزدیک شہید کی چھ خصلتیں ہیں اسی طرح ترمذی میں ہے اور ابن ماجہ میں ” ست “ (چھ) ہیں اور یہ تعداد میں سات ہیں، اس کی پہلی ہی بار (خون کا قطرہ زمین پر گرتے وقت) مغفرت کردی جاتی ہے اور وہ جنت میں اپنا ٹھکانا دیکھ لیتا ہے اور اسے عذاب سے بچا لیا جاتا ہے اور وہ بڑی گھبراہٹ سے محفوظ رہتا ہے اور اس کے سر پر یاقوت سے بنا ہوا وقار کا تاج رکھا جائے گا جو دنیا اور اس کی جملہ نعمتوں سے بہتر (اور ذی قدر) ہوگا اور حورعین میں سے بہتر کے ساتھ اس کی شادی کی جائے گی اور اس کے ستر رشتہ داروں کے حق میں اس کی شفاعت قبول کی جائے گی ، “ فرمایا یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے (1) (جامع ترمذی، فضائل الجہاد، جلد 1، صفحہ 200، 199، ایضا ابن ماجہ، باب فضل الشھادۃ فی سبیل اللہ، حدیث 2788، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اور یہی نعمت اور فضل کی تفسیر ہے۔ اور اس معنی میں آثار بہت زیادہ ہیں اور حضرت مجاہد سے مروی ہے کہ انہوں نے بیان کیا : تلواریں جنت کی چابیاں ہیں، اور رسول اللہ ﷺ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ نے شہداء کو پانچ کرامات کے ساتھ عزت وشرف عطا فرمایا ہے، اس نے ان کے ساتھ انبیاء (علیہم السلام) میں سے کسی کو مشرف نہیں فرمایا اور نہ ہی مجھے، ان میں سے ایک یہ ہے کہ تمام انبیاء (علیہم السلام) کی ارواح ملک الموت نے قبض کی ہیں اور وہی عنقریب میری روح بھی قبض کرے گا اور رہے شہداء تو ان کی ارواح اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کے ساتھ قبض کرتا ہے جیسے چاہتا ہے اور ان کی ارواح پر ملک الموت (علیہ السلام) کو مسلط نہیں کرتا اور دوسری یہ ہے کہ تمام انبیاء (علیہم السلام) کو وصال کے بعد غسل دیا گیا ہے اور مجھے بھی وصال کے بعد غسل دیا جائے گا لیکن شہداء کو غسل نہیں دیا جاتا اور نہ انہیں دنیوی پانی کی حاجت اور ضرورت ہے اور تیسری یہ کہ تمام انبیاء (علیہم السلام) کو کفن دیئے گئے ہیں اور مجھے بھی کفن دیا جائے گا اور شہداء کو کفن نہیں دیا جائے گا بلکہ انہیں انہی کے کپڑوں میں دفن کیا جاتا ہے اور چوتھی یہ کہ انبیاء (علیہم السلام) جب فوت ہوئے تو انہیں اموات کا نام دیا گیا اور جب میرا وصال ہوگا تو کہا جائے گا قدمات (آپ فوت ہوگئے ہیں) لیکن شہداء کو موتی کا نام نہیں دیا جاتا اور پانچویں یہ ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) کو قیامت کے دن شفاعت کا اختیار دیا جائے گا اور میری شفاعت بھی قیامت کے دن ہوگی لیکن شہداء ہر روز ان کے بارے میں شفاعت کرتے ہیں جن کی وہ شفاعت کرسکتے ہیں۔ قولہ تعالیٰ : (آیت) ” وان اللہ “ کسائی نے اسے الف کے کسرہ کے ساتھ ان پڑھا ہے اور باقیوں نے نصب کے ساتھ، (2) (زاد المیسر، جلد 1، صفحہ 401) پس جنہوں نے نصب کے ساتھ پڑھا ہے (تو اس کے مطابق) اس کا معنی یہ ہے یستبشرون بنعمۃ من اللہ ویستبشرون بان اللہ لا یضیع اجر المومنین (وہ خوش ہو رہے ہیں اللہ تعالیٰ کی نعمت پر اور اس پر وہ خوش ہو رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ مومنین کا اجر ضائع نہیں کرتا) اور جنہوں نے کسرہ کے ساتھ پڑھا ہے تو وہ ابتدائے کلام میں آنے کی بنا پر ہے اور اس کی دلیل حضرت ابن مسعود ؓ کی قرات ہے (آیت) ” واللہ لا یضیع اجر المؤمنین “۔
Top