Tafseer-e-Mazhari - Aal-i-Imraan : 171
یَسْتَبْشِرُوْنَ بِنِعْمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ فَضْلٍ١ۙ وَّ اَنَّ اللّٰهَ لَا یُضِیْعُ اَجْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ٤ۚۛ۠   ۧ
يَسْتَبْشِرُوْنَ : وہ خوشیاں منا رہے ہیں بِنِعْمَةٍ : نعمت سے مِّنَ : سے اللّٰهِ : اللہ وَفَضْلٍ : اور فضل وَّاَنَّ : اور یہ کہ اللّٰهَ : اللہ لَا يُضِيْعُ : ضائع نہیں کرتا اَجْرَ : اجر الْمُؤْمِنِيْنَ : ایمان والے
اور خدا کے انعامات اور فضل سے خوش ہورہے ہیں۔ اور اس سے کہ خدا مومنوں کا اجر ضائع نہیں کرتا
یستبشرون وہ بشارت پائیں گے یہ پہلے یستبشرون کی تاکید ہے یا پہلے سے دفع مضرت کی بشارت مراد ہے اور اس سے حصولمنفعت کی۔ نعمتۃ من اللہ اللہ کی طرف سے نعمت کی یعنی اعمال کے ثواب کی۔ و فضل اور (جزاء اعمال سے) زیادہ پانے کی بھی۔ اس سے مراد ہے دیدارِ الٰہی اور مراتب قرب۔ نعمۃٍ اور فضلٍ کی تنوین ان دونوں کی عظمت شان کو ظاہر کر رہی ہے (کیونکہ تنوین کبھی عظمت قدر کا بھی اظہار کرتی ہے) ان اللہ لایضیع اجرالمومنین اور اس بات کی بھی انکو بشارت ہوگی کہ اللہ اہل ایمان کے اجر کو اکارت نہیں کریگا حضرت ابوہریرہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : جو شخص راہ خدا میں جہاد کرے اور صرف جہاد فی سبیل اللہ (کا خیال) اور کلمہ اللہ کی تصدیق ہی اس کے گھر سے نکلنے کا سبب ہو تو اللہ نے اس کے متعلق ذمہ لے لیا ہے کہ (اگر مرگیا تو) اس کو جنت میں داخل کریگا یا اس گھر میں جس سے وہ نکلا ہے ثواب اور مال غنیمت کے ساتھ واپس لے آئے گا۔ قسم ہے اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے جو کوئی راہ خدا میں زخمی ہوگا اور اللہ ہی خوب جانتا ہے کہ کون اس کی راہ میں زخم کھاتا ہے (اور کون نام آوری اور شہرت کے لیے زخمی ہوتا ہے) جب وہ قیامت کے دن (سامنے) آئے گا تو اس کے زخم سے خون ابلتا ہوگا جس کا رنگ تو خون کا ہوگا اور خوشبو مشک کی۔ (رواہ البغوی) حضرت ابوہریرہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : شہید قتل کا دکھ بس اتنا (اتنی دیر) پاتا ہے جتنا (یعنی جتنی دیر) تم چیونٹی کے کاٹنے سے پاتے ہو۔ (رواہ الدارمی والترمذی) ترمذی نے اس حدیث کو حسن غریب کہا ہے۔ نسائی نے سنن میں طبرانی نے الوسط میں صحیح سند سے حضرت ابو قتادہ کی روایت سے بھی اس کو بیان کیا ہے۔ آیت دلالت کر رہی ہے کہ مؤمنون کا اجر ضائع نہ ہوگا خواہ کوئی مؤمن ہو شہید ہو یا نہ ہو گو یا شہداء کو سب مؤمنوں کی حالت سے خوشی ہوگی۔ بعض علماء نے کہا کہ اس آیت کا نزول شہداء بدر کے متعلق ہوا جن کی تعداد 14 تھی۔ آٹھ انصاری اور چھ مہاجر مگر یہ روایت ضعیف ہے کسائی نے اَنّ کی جگہ اِنّ بکسر ہمزہ پڑھا ہے اور جملہ کو استینافیہ معترضہ کہا ہے گویا آیت اس امر پر دلالت کر رہی ہے کہ یہ امر شہداء کے ایمان کا ہوگا کیونکہ جس کا ایمان نہ ہو اس کے تمام اعمال اکارت جائیں گے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اس آیت کا نزول بئر معونہ کے شہداء کے حق میں ہوا جس کی تفصیل محمد بن اسحاق اور عبد اللہ بن ابی نے حضرت انس ؓ وغیرہ کی روایت کی بناء پر اس طرح بیان کی ہے کہ عامر بن مالک بن جعفر عامری جس کا لقب ملا عب الاَسِنّہ تھا۔ رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور دو گھوڑے اور دو اونٹنیاں ہدیہ میں پیش کیں حضور نے قبول کرنے سے انکار کردیا اور فرمادیا میں مشرک کا ہدیہ قبول نہیں کروں گا اگر تم چاہتے ہو کہ میں تمہارا ہدیہ قبول کرلوں تو مسلمان ہوجاؤ وہ مسلمان نہیں ہوا لیکن اسلام سے دور بھی نہیں گیا (یعنی نفرت کا اظہار بھی نہیں کیا) اور بولا محمد ﷺ جس چیز کی تم دعوت دیتے وہ ہے تو اچھی خوبصورت پس اگر تم اپنے ساتھیوں میں سے کچھ لوگوں کو اہل نجد کے پاس (دعوت دینے کے لیے) بھیج دو تو مجھے امید ہے کہ وہ تمہاری دعوت کو قبول کرلیں گے حضور ﷺ نے فرمایا : مجھے اہل نجد کی طرف سے اپنے آدمیوں کا خطرہ ہے ابو براء بولا میں ان کی پناہ کا ذمہ لیتا ہوں چناچہ رسول اللہ نے حضرت منذر بن عمر ساعدی کو سترّ منتخب انصاری صحابہ کا سردار بنا کر سب کو بھیج دیا۔ ان سترّ آدمیوں کو قاری کہا جاتا تھا۔ (یعنی یہ سب قاری اور عالم قرآن تھے) انہی میں حضرت ابوبکر کے آزاد کردہ غلام حضرت عامر بن فہیرہ بھی تھے۔ یہ روانگی ماہ صفر 4 ھ میں ہوئی۔ غرض یہ لوگ چل دیئے اور بیئر معونہ پر پہنچ کر پڑاؤ کیا۔ بیئر معونہ کی زمین بنی عامر کی زمین اور بنی سلیم کے پتھریلے علاقہ کے درمیان واقع تھی یہاں پہنچ کر ان لوگوں نے حضرت حرام بن ملحان کو رسول اللہ کا نامۂ مبارک دے کر بنی عامر کے کچھ آدمیوں کے ساتھ عامر بن طفیل کے پاس بھیجا حضرت حرام نے پہنچ کر کہا میں رسول اللہ کا قاصد ہوں تمہارے پاس آیا ہوں میں شہادت دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد اللہ کے بندے اور رسول ہیں لہٰذا تم اللہ اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان لے آؤ حضرت حرام کی اس تبلیغ کے بعد ایک شخص نیزہ لے کر گھر کی جھونپڑی سے برآمد ہوا اور آتے ہی حضرت حرام کے پہلو پر برچھا مارا جو دوسرے پہلو سے نکل گیا۔ حضرت حرام فوراً بول اٹھے۔ اللہ اکبر۔ رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہوگیا اس کے بعد عامر بن طفیل نے بنی عامر کو ان صحابیوں کے خلاف چیخ کر آواز دی بنی عامر نے اس کی بات قبول کرنے سے انکار کردیا اور بولے ابو براء کی ذمہ داری کو نہ توڑو۔ عامر بن طفیل نے بنی سلیم کے قبائل عصیہ رعل اور ذکوان کو پکارا انہوں نے آواز پر لبیک کہی اور نکل کر صحابہ ؓ پر چھا گئے اور فرود گاہ پر آکر سب کو گھیر لیا صحابہ نے مقابلہ کیا یہاں تک کہ سب شہیدہو گئے صرف کعب بن زید بچ گئے اور وہ بھی اس طرح کہ کافر ان کو مردہ سمجھ کر چھوڑ گئے تھے مگر ان میں کچھ سانس باقی تھی اس لیے زندہ رہے اور آخر خندق کی لڑائی میں مارے گئے۔ حضرت عمرو بن امیہ ؓ کو ان لوگوں نے قید کرلیا تھا لیکن عمر و نے ان کو بتایا کہ میں قبیلہ مضر کا ہوں تو عامر بن طفیل نے ان کو چھوڑ دیا اور انہوں نے رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہو کر اطلاع دی رسول اللہ نے فرمایا : یہ حرکت ابو براء کی ہے ابو براء کو اس کی اطلاع ملی تو عامر بن طفیل کی طرف سے اس کو اپنی ذمہ داری کی شکست بہت بار گزری محمد بن اسحاق کا بیان ہے کہ عامربن طفیل کہتا تھا ان میں وہ شخص کون تھا کہ جب وہ مارا گیا تو اس کو آسمان و زمین کے درمیان اٹھالیا گیا۔ یہاں تک کہ آسمان مجھے اس سے نیچے نظر آنے لگا لوگوں نے کہا وہ عامر بن فہیرہ تھے۔ اس واقعہ کے بعد ابو براء کے بیٹے ربیعہ نے عامر بن طفیل پر حملہ کردیا۔ عامر گھوڑے پر سوار تھا۔ ربیعہ نے اس کے نیزہ مارا اور قتل کردیا۔ صحیحین میں بوساطت قتادہ حضرت انس کا قول مروی ہے کہ رعل اور ذکوان اور عصیہ اور بنی لحیان کے قبائل رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ظاہر کیا کہ ہم مسلمان ہوگئے ہیں اور دشمنوں کے خلاف رسول اللہ سے (فوجی) مدد مانگی۔ حضور ﷺ نے ان کے ساتھ ستر انصاری جن کو ہم قاری کہتے تھے بطور مدد کردیئے یہ حضرات دن میں لکڑیاں جمع کرتے (اور فروخت کرکے گذارا کرتے) اور رات کو نمازیں پڑھتے تھے جب یہ لوگ بیئر معونہ پر پہنچے تو کافروں نے ان کے ساتھ دھوکہ کیا اور (سب کو) شہید کردیا۔ رسول اللہ کو اس کی خبرپہنچی تو آپ ﷺ نے ایک ماہ تک صبح کی نماز میں دعا قنوت پڑھی جس میں کچھ قبائل عرب یعنی رعل، ذکوان، عصیہ اور بنی لحیان کے لیے بد دعا کی۔ امام احمد اور بخاری اور مسلم اور بیہقی نے حضرت انس کی روایت سے اور بیہقی نے حضرت ابن مسعود کی روایت سے اور بخاری نے عروہ کی روایت سے بیان کیا ہے کہ کچھ لوگوں نے رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا : ہمارے ساتھ کچھ لوگوں کو بھیج دیجئے۔ جو ہم کو قرآن و سنت کی تعلیم دیں حضور ﷺ نے ان کے ساتھ سترّ انصاری جن کو قاری کہا جاتا تھا بھیج دیئے۔ مقام پر پہنچنے سے پہلے ہی یہ درخواست کرنے والے ان قاریوں کے درپے ہوگئے اور سب کو شہید کردیا۔ شہداء نے کہا اے اللہ ! ہمارے نبی ﷺ کو یہ خبر پہنچا دے۔ دوسری روایت میں آیا ہے ہمارے بھائیوں کو یہ خبر پہنچا دے کہ ہم نے (اے اللہ) تجھے پا لیا ہم تجھ سے راضی ہیں اور تو ہم سے راضی ہے اللہ نے وحی بھیجی کہ میں شہداء کی طرف سے (اے مسلمانو) تم کو یہ پیام پہنچاتا ہوں کہ اللہ ان سے خوش ہے اور وہ اللہ سے راضی۔ حضرت انس ؓ نے فرمایا : پہلے ہم (قرآن میں) ان شہداء کے بارے میں پڑھتے تھے۔ بَلِّغُوْا عَنَّا قَوْمَناَ اَنَّا قَدْ لَقِیْنَا رَبَّنَا فَرَضِیَ عَنَّا وَ اَرْضَانا لیکن پھر یہ جملے منسوخ کردیئے گئے (اور قرآن سے خارج کردیئے گئے) اس واقعہ کے بعد رسول اللہ نے ایک چلہ تک صبح کی نماز میں قبائل رعل، ذکوان، عصیہ اور بنی لحیان کے لیے بددعا کی ان قبائل نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی تھی۔ بغوی نے حضرت انس کے قول کے آخر میں اتنے الفاظ مزید نقل کئے ہیں کہ ہم اس کو ایک زمانہ تک پڑھتے رہے پھر اس کو اٹھا لیا گیا اور اللہ نے نازل فرمایا : وَلَا تحسبن الذین قتلوا فی سبیل اللہ امواتا۔۔ آخر آیت تک۔ میں کہتا ہوں آیت کے شان نزول میں اگرچہ اختلاف ہے جیسا سطور بالا سے ظاہر ہو رہا ہے لیکن آیت کے الفاظ تمام شہداء کو شامل ہیں اور حکم عام ہے۔ مسئلہ اجماع علماء ہے کہ شہید کو غسل نہ دیا جائے کیونکہ احد کے شہداء کو غسل نہیں دیا گیا اور رسول اللہ ﷺ نے حم دیا کہ انکے ہتھیار اور چمڑے ( کا سامان) تو اتار لئے جائیں باقی خون اور کپڑوں سمیت دفن کردیا جائے۔ (رواہ ابو داؤد ابن ماجہ عن ابن عباس) نسائی نے صحیح سند کے ساتھ حضرت عبد اللہ بن ثعلبہ ؓ کی روایت سے رسول اللہ ﷺ کا یہ فرمان نقل کیا ہے کہ ان کو خون سمیت چھپا دو کیونکہ اللہ کی راہ میں جو شخص زخمی ہوگا وہ قیامت کے دن خون سمیت آئے گا اس کے خون کا رنگ تو خون کا سا ہوگا اور اس کی خوشبو مشک ہوگی اسی مبحث کی ایک حدیث حضرت جابر ؓ کی روایت سے آئی ہے کہ ایک آدمی کے سینہ میں تیر لگا جس سے اس کی موت ہوگئی اس کو انہی کپڑوں میں اور اسی طرح لپیٹ دیا گیا ( اور دفن کردیا گیا) اور ہم رسول اللہ کے ہمرکاب تھے۔ (رواہ ابو داؤد باسناد علی شرط مسلم) مسئلہ اگر جنابت کی حالت میں کوئی شہید ہوجائے تو کیا اس کو غسل دیا جائے۔ یہ مسئلہ اختلافی ہے۔ امام ابوحنیفہ اور امام احمد کے نزدیک غسل دیا جائے امام مالک اور امام شافعی کہتے ہیں غسل نہ دیا جائے کیونکہ رسول اللہ کا فرمان زَمِّلُوْھُمْ بدعاءھم عام ہے۔ امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک حضرت حنظلہ بن ابی عامر کا قصہ ماخذ استدلال ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا تھا میں نے دیکھا کہ فرشتے حنظلہ بن ابی عامر کو آسمان و زمین کے درمیان سفید ابر کے پانی سے چاندی کے برتنوں میں غسل دے رہے تھے۔ ابو اسید ساعدی کا بیان ہے ہم نے جا کر حنظلہ کی نعش کو دیکھا تو ان کے سر سے پانی ٹپک رہا تھا میں نے واپس آکر رسول اللہ کو اس کی اطلاع دی حضور ﷺ نے ان کی بیوی کے پاس دریافت حال کے لیے آدمی بھیجا بیوی نے کہا وہ جنابت کی حالت میں باہر گئے تھے حنظلہ کی اولاد کو اسی لیے غسیل الملائکہ (فرشتوں کے غسل دیئے ہوئے) کی اولاد کہا جاتا ہے۔ ابن الجوزی نے اس حدیث کو محمد بن سعد کی روایت سے مرسلاً اور ابن حبان اور حاکم اور بیہقی نے ابن اسحاق کے سلسلہ سے (بقول حافظ) مسندًا نقل کیا ہے حاکم نے اکلیل میں ابو اسید کی روایت سے بھی اس کو نقل کیا ہے لیکن اس کی اسناد میں ضعف ہے۔ حاکم نے مستدرک میں اور طبرانی و بیہقی نے حضرت ابن عباس کی روایت سے بھی یہ حدیث بیان کی ہے لیکن حاکم کی روایت میں معلی بن عبد الرحمن راوی متروک ہے اور طبرانی کی اسناد میں حجاج مدلس ہے اور بیہقی کی سند میں ابو شیبہ واسطی ضعیف ہے۔ مسئلہ شہید کی نماز جنازہ پڑھی جائے ؟ (امام ابوحنیفہ (رح) و امام مالک) نہ پڑھی جائے (امام شافعی) امام احمد کے دونوں قول روایت میں آئے ہیں۔ ہماری دلیل یہ ہے کہ نماز یا گناہوں کی مغفرت کے لیے ہے یا میت کی عزت افزائی اور ترقی درجات کے لیے اور شہید عزت افزائی کا زیادہ مستحق ہے اگر نماز نہ پڑھنے میں تکریم میت ہوتی تو رسول اللہ اس کے زیادہ مستحق تھے، آپ کی نماز نہ پڑھی جاتی حالانکہ اجماعاً آپ کی نماز پڑھی گئی۔ پھر اصل نماز ہی ہے (جب تک کوئی شرعی مانع نہ ہو ترک کرنا ناجائز ہے) امام شافعی نے حضرت جابر بن عبد اللہ ؓ کی روایت کردہ حدیث سے استدلال کیا ہے کہ احد کے شہداء میں سے دو دو کو رسول اللہ ایک کپڑے میں جمع کرکے فرماتے تھے ان دونوں میں قرآن کس کو زیادہ یاد تھا ؟ جب ایک کی طرف اشارہ کردیا جاتا تو آپ اس کو لحد میں پہلے اترواتے۔ حضور ﷺ نے یہ بھی فرمایا : کہ میں قیامت کے دن ان سب کا گواہ رہوں گا۔ پھر آپ ﷺ نے سب کو انہی کے کپڑوں میں دفن کرنے کا حکم دیدیا اور ان کی نماز نہیں پڑھی نہ ان کو غسل دیا گیا۔ (رواہ البخاری والنسائی وابن ماجہ و ابن حبان) حضرت انس ؓ کی بھی روایت ہے کہ احد کے دن رسول اللہ نے دو دو تین تین آدمیوں کو ایک ہی کپڑے کا کفن دلوایا اور ان کو دفن کرایا اور ان کی نماز نہیں پڑھی۔ (رواہ احمد وابو داؤد والترمذی والحاکم) ترمذی نے اس حدیث کو حسن اور حاکم نے صحیح کہا ہے مگر بخاری نے اس کو معلل قرار دیا ہے اور لکھا ہے کہ اسامہ بن زید کی روایت عن زہری عن انس غلط ہے۔ بخاری نے مذکورہ بالا حضرت جابر کی روایت کو ترجیح دی ہے۔ امام شافعی کی دلیل کا جواب یہ ہے کہ شاید رسول اللہ نے شہداء احد کی نماز اس لیے نہ پڑھی ہو کہ آپ خود زخمی ہوگئے تھے اور دندان مبارک بھی شہید ہوگیا تھا بہت ممکن ہے دوسروں نے پڑھی ہو اس احتمال کی تائید اس حدیث سے ہوتی ہے جو ابو داؤد نے مراسیل میں اور حاکم اور طحاوی نے حضرت انس کی روایت سے بیان کی ہے کہ رسول اللہ حضرت امیرحمزہ کی طرف سے گذرے آپ ﷺ کی میت کو مثلہ کردیا گیا تھا۔ حضور ﷺ نے حضرت حمزہ کے علاوہ (احد کے دن) اور کسی شہید کی نماز نہیں پڑھی۔ طحاوی کی روایت میں اتنا زائد ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا : میں قیامت کے دن تمہارا سب کا گواہ ہوں گا۔ ایک شبہ یہ حدیث دار قطنی نے نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ سوائے عثمان بن عمرو کے اور کسی راوی نے یہ آخری جملہ (کہ حمزہ کے علاوہ اور کسی شہید کی نماز نہیں پڑھی) نہیں بیان کیا پس یہ زیادتی (حدیث میں) محفوظ نہیں ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ ابن جوزی نے لکھا ہے کہ عثمان سے تخریج حدیث صحیحین (بخاری و مسلم) میں کی گئی ہے۔ (معلوم ہوا کہ عثمان ثقہ ہے) اور ثقہ اگر حدیث میں کچھ زیادہ بیان کرے تو قابل قبول ہے۔ طحاوی نے لکھا ہے کہ اگر شہید کی نماز نہ پڑھنا سنت ہوتا تو رسول اللہ حضرت حمزہ کی نماز نہیں پڑھتے حالانکہ آپ کے شرف و فضل سے حضور ﷺ نے آپ کی میت کی نماز پڑھی البتہ دوسروں کی نہیں پڑھی کیونکہ حضور کو خود (زخموں کا) دکھ تھا۔ پھر نماز نہ پڑھنے کی احادیث کے خلاف مختلف صحابہ سے متعدد احادیث آئی ہیں۔ مثلاً حضرت جابر کی حدیث میں آیا ہے کہ جب لوگ لڑائی سے (واپس) آئے تو رسول اللہ نے حمزہ کو نہ پایا۔ ایک شخص کا بیان ہے کہ میں نے اس درخت کے پاس آپ ﷺ کو دیکھا جب حمزہ ؓ پر آپ کی نظر پڑی اور ان کو مثلہ کئے ہوئے دیکھا تو چیخ پڑے اور رو دیئے۔ ایک انصاری نے اٹھ کر حضرت حمزہ پر چادر ڈال دی پھر میت کو لایا گیا اور آپ نے اس کی نماز پڑھی پھر دوسرے شہداء کو لا کر حمزہ کے برابر رکھ دیا گیا اور آپ ﷺ نے ان کی نماز پڑھی پھر دوسرے شہداء کو اٹھایا جانے لگا لیکن حمزہ کو (وہیں) چھوڑ دیا گیا آخر تمام شہداء کی نماز حضور ﷺ نے پڑھی اور فرمایا : قیامت کے دن اللہ کے نزدیک حمزہ سیّد الشہداء ہوں گے۔ اس حدیث کو حاکم نے نقل کرکے صحیح الاسناد کہا ہے مگر اس کی سند میں ایک شخص مفضل بن صدقہ ابو حماد حنفی ہے جس کو بعض لوگوں نے متروک کہا ہے اور نسائی و یحییٰ نے بھی اس کو ضعیف قرار دیا ہے لیکن اہوازی کا بیان ہے کہ عطاء بن مسلم اس کو ثقہ جانتے تھے اور احمد بن محمد بن شعیب اس کی پوری پوری تعریف کرتے تھے اور ابن عدی نے کہا کہ مجھے اس میں کوئی خرابی نظر نہیں اتی۔ بہر حال یہ حدیث حسن کے درجے سے گری ہوئی نہیں ہے۔ ایک حدیث حضرت ابن عباس کی روایت سے آئی ہے کہ رسول اللہ کے حکم پر حضرت حمزہ (کی میت) کو چادر سے ڈھانک دیا گیا اور آپ ﷺ نے ان کی نماز سات تکبیروں کے ساتھ پڑھی پھر دوسرے شہداء کو لا کر حضرت حمزہ کے برابر رکھا جانے لگا اور حضور ﷺ شہداء کی اور ان کے ساتھ حضرت حمزہ کی نماز پڑھتے رہے یہاں تک کہ حمزہ کی نماز بہتر مرتبہ پڑھی۔ یہ حدیث ابن اسحاق نے نقل کی ہے اور صراحت کی ہے کہ مجھ سے یہ حدیث ایک ایسے شخص نے بیان کی جس کو میں (کذب سے) متہم نہیں کرتا اور اس سے حضرت ابن عباس ؓ کے آزاد کردہ غلام مقسم نے بیان کی اور مقسم سے حضرت ابن عباس نے اس کو بیان کیا۔ مقدمۂ مسلم میں عن شعبۃ عن الحسن بن عمارۃ عن الحکم عن مقسم عن ابن عباس سے منقول ہے کہ رسول اللہ نے شہداء احد کی نماز پڑھی۔ لیکن میں نے حکم سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ حضور نے شہداء احد کی نماز نہیں پڑھی۔ سہیلی نے کہا کہ حسن بن عمارہ ضعیف ہے۔ حافظ نے لکھا ہے کہ یہ حدیث حاکم اور ابن ماجہ اور طبرانی اور بیہقی سب نے یزید بن زیاد کی وساطت سے بروایت مقسم عن ابن عباس بیان کی ہے حافظ نے کہا کہ یزید میں کسی قدر ضعف ہے۔ ابن جوزی نے کہا اس کو پھینک دو ۔ بخاری نے کہا یہ منکر الحدیث ہے۔ نسائی نے کہا یہ متروک ہے۔ حضرت ابن مسعود کی روایت سے بھی ایسی ہی حدیث آئی ہے کہ رسول اللہ نے حمزہ کی سترّ نمازیں پڑھیں۔ (رواہ احمد) یہ حدیث بھی ضعیف ہے مگر ابن ہمام نے کہا ہے کہ حسن کے درجہ سے گری ہوئی نہیں ہے۔ ایک حدیث ابو مالک غفاری (تابعی) کی روایت کردہ ہے جس کی تخریج ابو داؤد نے مراسیل میں کی ہے کہ رسول اللہ نے شہداء احد کی دس دس کی نماز (یکجائی) پڑھی اور ہر دس میں حمزہ (کا جنازہ) شامل تھا یہاں تک کہ حمزہ کی سترّ نمازیں پڑھیں۔ حافظ نے کہا اس حدیث کے راوی ثقات ہیں اور ابن مالک تابعی تھے جن کا نام غزوان تھا۔ امام شافعی نے اس حدیث کو معلل قرار دیا ہے کیونکہ اس کے مضمون میں خود باہم ٹکراؤ ہے کیونکہ شہداء ستر تھے جب دس دس کی ٹولی کی نما پڑھی تو کل سات نماز ہوئیں (ستر کیسے ہوئیں) شافعی کے اس اعتراض کا جواب اس طرح دیا گیا ہے کہ حدیث کا مطلب (یہ نہیں ہے کہ دس دس کی ٹولی کی سترّ نمازیں پڑھیں بلکہ) یہ ہے کہ ستر آدمیوں کی نمازیں پڑھیں اور ہر ایک کی نماز میں حمزہ کی میت کی نماز شامل تھی۔ ان احادیث کے اجتماع سے اتنا ثابت ہوتا ہے کہ شہداء کی نماز پڑھی گئی۔ مذکورہ بالا احادیث مختلفہ میں تطبیق اس طرح دی جائے گی کہ جس حدیث میں شہداء احد کی نماز پڑھنا مذکور ہے اس میں نماز پڑھنے کی نسبت رسول اللہ کی طرف مجازی ہے یعنی آپ ﷺ نے نماز پڑھنے کا حکم دیا (خود نہیں پڑھی) اور جس حدیث میں یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے شہداء احد کی نماز نہیں پڑھی تو یہ کلام حقیقی ہے یعنی خود نہیں پڑھی اور جس روایت میں تفصیل آئی ہے کہ حضرت حمزہ ؓ کی نماز حضور ﷺ نے پڑھی دوسروں کی نہیں تو یہ واقعہ کا صحیح بیان ہے۔ اس موضوع کی ایک حدیث وہ ہے جو نسائی اور طحاوی نے شداد بن ہاد کی روایت سے مرسلاً بیان کی ہے کہ ایک اعرابی خدمت گرامی میں حاضر ہوا اور ایمان لا کر حضور ﷺ کر پیرو بن گیا اور عرض کیا : میں حضور ﷺ کے ہمرکاب ہجرت کروں گا رسول اللہ نے اس کی نگہداشت ایک صحابی کے سپرد کردی اس کے بعد کوئی جہاد ہوا جس میں رسول اللہ کو کچھ چیزیں مال غنیمت کی ملیں آپ ﷺ نے وہ مال تقسیم کیا تو اس اعرابی کا بھی حصہ دیا۔ اس حدیث میں آیا ہے کہ اعرابی نے عرض کیا : میں نے آپ ﷺ کی پیروی اس غرض کے لیے نہیں کی بلکہ اپنے حلق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے (کہا) اس لیے کی ہے کہ اس جگہ میرے تیر لگے اور میں مرجاؤں اور جنت میں چلا جاؤں۔ اس حدیث (کے آخر) میں ہے کہ اس شخص کو (شہید ہونے کے بعد) اٹھا کر رسول اللہ کے پاس لا یا گیا اور جس جگہ اس نے اشارہ کیا وہیں اس کے تیر لگا تھا۔ رسول اللہ نے فرمایا : کیا وہی ہے ؟ وہی صحابہ نے عرض کیا : جی ہاں۔ حضور ﷺ نے اس کو آگے رکھا اور اس کی نماز پڑھی اور نماز میں جو الفاظ ظاہر طور پر فرمائے تھے وہ یہ تھے اے اللہ یہ تیرا بندہ تیری راہ میں ہجرت کرکے نکلا تھا اور شہید ہوگیا میں اس کی شہادت دیتا ہوں۔ یہ حدیث مرسل ہے اور ہمارے نزدیک مرسل حدیث بھی حجت (کسی مسئلہ کی محکم دلیل) ہے۔ فصل بخاری وغیرہ نے حضرت عقبہ بن عامر کی روایت سے لکھا ہے کہ رسول اللہ نے شہداء احد کی نماز آٹھ برس کے بعد یعنی اپنی وفات سے کچھ پہلے پڑھی۔ بیہقی نے اس حدیث میں لفظ صلوٰۃ سے دعا مراد لی ہے (یعنی حضور ﷺ نے آٹھ برس کے بعد شہداء احد کے لیے دعا کی) مگر یہ تاویل لغو ہے کیونکہ آٹھ برس کے بعد دعا صرف ایک بار کی ہو یہ قطعاً لغو ہے بلکہ طحاوی وغیرہ کی بعض روایات میں ان الفاظ کے ساتھ یہ حدیث آئی کہ ایک روز رسول اللہ نے باہر نکل کر احد والوں کی نماز ایسی پڑھی جیسی میت کی نماز ہوتی ہے۔ اگر شبہ کیا جائے کہ احناف کے نزدیک تو تین روز کے بعد میت کی نماز جائز ہی نہیں ہے (اور مذکورہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ آٹھ برس بعد کا ہے پھر حنفیہ کے پاس اس کا کیا جواب ہے) تو ہم اس کے جواب میں کہیں گے کہ چونکہ تین روز کے اندر قبر میں مردہ پھٹ جاتا ہے (اور اس کا بدن اپنی ہیئت ترکیبی پر نہیں رہتا) اس لیے حنفیہ تین روز کے بعد جنازہ کی نماز کی اجازت نہیں دیتے لیکن شہید کے متعلق تو ثابت ہوچکا ہے کہ اس کو زمین نہیں کھاتی اور وہ ہمیشہ ویسا ہی رہتا ہے جیسا دفن کے دن ہوتا ہے ا سلیے اس کی نماز (خواہ کتنی ہی مدت کے بعد ہو) جائز ہے اور اس کی صحت رسول اللہ سے منقول ہے (پھر انکار کی کوئی وجہ نہیں) ۔ فریانی، نسائی اور طبرانی نے صحیح سند کے ساتھ حضرت ابن عباس کا قول نقل کیا ہے کہ جب مشرک احد سے واپس چلے گئے تو آپس میں کہنے لگے تم نے بڑی غلطی کی نہ محمد کو قتل کرسکے نہ نوجوان عورتوں کو (لوٹ کر) اپنی پشت کے پیچھے سوار کرکے لائے اب لوٹ پڑو۔ رسول اللہ نے یہ بات سنی تو مسلمانوں کو بلوایا سب نے دعوت پر لبیک کہی (اور حاضر ہوگئے ) ۔۔ محمد بن عمرو کی روایت ہے کہ جب سنیچر کے دن 15 تاریخ کو احد سے لوٹے تو دشمن کے لوٹ پڑنے کا اندیشہ سے خزرج اور اوس کے سرداروں نے حضور ﷺ کے دروازہ پر ہی رات گذاری 16 تاریخ اتوار کے دن کی فجر نکلی تو بلال نے اذان دی اور حضور ﷺ کا انتظار کرنے لگے۔ حضور ﷺ برآمد ہوئے تو ایک مزنی شخص نے اطلاع دی کہ مشرک جب روحاء پر پہنچے تو ابو سفیان نے کہا (مدینہ کو) لوٹ چلو تاکہ جو لوگ باقی رہ گئے ہیں ہم ان کا جڑ سے صفایا کردیں۔ صفوان بن امیہ نے انکار کردیا اور کہنے لگا لوگو ! ایسا نہ کرو وہ لوگ شکست کھاچکے ہیں اب مجھے اندیشہ ہے کہ خزرج کے جو لوگ رہ گئے تھے وہ تمہارے خلاف جمع ہوجائیں گے اگر لوٹ کر جاؤ گے تو مجھے خطرہ ہے کہ کہیں تمہاری فتح شکست سے نہ بدل جائے لہٰذا (مکہ کو ہی) واپس چلو۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : صفوان سیدھے راستہ پر تو نہیں ہے مگر اس رائے میں وہ سب سے زیادہ صائب تھا قسم ہے اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ان لوگوں پر برسنے کے لیے تو (غیبی) پتھر نامزد کردیئے گئے تھے اگر وہ لوٹ پڑتے تو گذرے ہوئے دن کی طرح گئے گذرے ہوجاتے (ان کا نشان بھی باقی نہ رہتا) پھر رسول اللہ نے حضرت ابوبکر ؓ و حضرت عمر ؓ کو بلوایا اور اس خبر کا تذکرہ ان سے کیا دونوں نے جواب دیایا رسول اللہ دشمن کا تعاقب کیجئے کہیں وہ ہمارے بال بچوں پر سر نہ اٹھائیں۔ اس مشورہ کے بعد رسول اللہ نے بلال کو حکم دیا کہ منادی کردو کہ رسول اللہ دشمن کا تعاقب کرنے کا تم کو حکم دیتے ہیں لیکن ہمارے ساتھ آج وہی لوگ نکلیں جو کل لڑائی میں حاضر تھے۔ اسید بن حضیر جن کے نو زخم لگے تھے اور وہ ان کا علاج کرنا چاہتے تھے اس نداء کو سن کر بولے بسرو چشم ہم اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے حکم پر حاضر ہیں۔ حضرت اسید زخموں کے علاج کی طرف مائل بھی نہ ہوئے (اور حاضر ہوگئے) خاندان بنی سلمہ کے چالیس زخمی نکل کھڑے ہوئے طفیل بن نعمان کے تیرا (13) زخم لگے تھے خراش بن صمہ کو دس (10) ، کعب بن مالک کو کچھ اوپر دس (10) اور عطیہ بن عامر کو نو (9) ۔ غرض مسلمانوں نے اپنے زخموں کے علاج کی طرف توجہ بھی نہ کی اور دوڑ کر اسلحہ اٹھا لئے۔ ابن عقبہ راوی ہیں کہ عبد اللہ بن ابی نے عرض کیا : یارسول اللہ میں حضور کے ہم رکاب چلوں ؟ فرمایا : نہیں۔ ابن اسحاق اور محمد بن عمر راوی کی روایت ہے کہ حضرت جابر بن عبد اللہ نے حاضر ہو کر عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ ! آپ ﷺ کے منادی نے ندا کی ہے کہ صرف وہی لوگ ہمارے ساتھ آج نکل کر چلیں جو کل جنگ میں شریک تھے میرا قصہ یہ ہے کہ میں جنگ میں شریک ہونے کا بڑا خواہشمند تھا لیکن میرے والد نے مجھے اپنی جگہ میری سات یا نو بہنوں کا نگراں مقرر کیا تھا اور کہا تھا کہ ان عورتوں کو بغیر کسی مرد کی سرپرستی کے یونہی چھوڑ جانا نہ تیرے لیے مناسب ہے نہ میرے لیے اور میں رسول اللہ کے ساتھ جہاد پر جانے کے لیے تجھے اپنے اوپر ترجیح نہیں دے سکتا شاید اللہ مجھے شہادت نصیب فرما دے۔ (تو میری جگہ تو ان کی نگرانی رکھے گا) اور میں شہادت کی تمنا رکھتا ہوں۔ اس مجبور کی وجہ سے میں لڑ کیوں کا نگراں ہو کر شرکت جہاد سے رہ گیا اور باپ مجھے نگراں چھوڑ کر شہید ہوگئے۔ اب یا رسول اللہ مجھے اپنے ہمرکاب جانے کی اجازت دیدیجئے۔ اس درخواست پر رسول اللہ نے جابر کو اجازت دیدی حضرت جابر کا بیان ہے بہت سے ان لوگوں نے جو گذشتہ دن جہاد میں شریک نہیں ہوئے تھے۔ رسول اللہ سے اس روز نکلنے کی درخواست کی مگر حضور نے انکار کردیا اور گذشتہ دن کے غیر حاضروں میں سے سوائے میرے کوئی نہ جاسکا۔ ابن اسحاق اور ان کے متبعین کا بیان ہے کہ رسول اللہ دشمن کو ڈرانے کے لیے تعاقب میں نکلے تھے تاکہ ان کو اطلاع پہنچ جائے کہ رسول اللہ ان کے تعاقب میں نکلے ہیں اور مسلمانوں میں قوت ہے اور گذشتہ دن کی شکست دشمن کے مقابلہ سے ان کو کمزور نہیں بنا سکی چناچہ رسول اللہ سترّ آدمیوں کو ساتھ لے کر مدینہ سے نکلے ان لوگوں میں حضرت ابو بکر، حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت طلحہ، حضرت زبیر، حضرت سعد، حضرت عبد الرحمن بن عوف، حضرت عبد اللہ بن مسعود، حضرت حذیفہ بن یمان ؓ اور حضرت ابو عبیدہ بن جراح ؓ بھی شامل تھے۔ مدینہ سے نکل کر حمراء الاسد کے مقام پر پہنچے یہ مقام مدینہ سے آٹھ میل کے فاصلہ پر راستہ سے بائیں ہاتھ کو ذوالحلیفہ جاتے ہوئے پڑتا ہے سعد بن عبادہ ؓ نے تیس اونٹ سواری کے لیے دیئے تھے اور کچھ جانور ذبح کرنے کے لیے اس جگہ پہنچ کر پیر کے دن 17 تاریخ کو اور منگل کے دن 18 تاریخ کو اونٹ ذبح کئے گئے ( اور قیام کیا گیا) دن میں لکڑیاں جمع کرنے کا حضور ﷺ نے حکم دیدیا تھا۔ شام ہوئی تو آگ جلانے کا حکم دیا۔ حسب الحکم ہر شخص نے آگ روشن کی اور کل پانچ سو جگہ آگ روشن کی گئی (تاکہ کافروں کو دور سے دیکھ کر مسلمانوں کی کثرت محسوس ہوئی۔ معبد خزاعی جو اس زمانہ میں مشرک تھا، لیکن ابو عمرو اور ابن جوزی نے اس کے مسلمان ہونے کی قطعی صراحت کی ہے۔ رسول اللہ سے ملا اور بنی خزاعہ کے مسلمان اور کافر سب تہامہ میں رسول اللہ سے میل جول رکھتے تھے حضور ﷺ سے ان کا معاہدہ تھا وہ تہامہ کی کوئی بات رسول اللہ سے پوشیدہ نہیں رکھتے تھے۔ معبد خزاعی نے کہا محمد ﷺ جو مصیبت آپ ﷺ پر اور آپ ﷺ کے ساتھیوں پر پڑی اس کا ہم کو بڑا دکھ ہوا ہماری دلی خواہش تھی کہ اللہ (اس سے) آپ کو بچائے رکھتا اس کے بعد یہاں سے نکل کر معبد ابو سفیان کے پاس روحاء میں پہنچا مشرکوں نے لوٹ کر رسول اللہ پر حملہ کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا اور انہوں نے کہا تھا کہ مسلمانوں کے بڑے بڑے ساتھیوں اور لیڈروں کو ہم ختم کرچکے ہیں اب لوٹ کر باقی لوگوں پر حملہ کرکے ان کی طرف سے بالکل بےغم ہوجائیں گے۔ ابو سفیان نے جو معبد کو دیکھا تو پوچھا ادھر کی کیا خبر ہے ؟ معبد نے کہا محمد ﷺ اور ان کے ساتھی اتنی بڑی فوج لے کر تمہارے تلاش میں نکلے ہیں کہ اتنی فوج میں نے کبھی نہیں دیکھی وہ تم پر دانت پیس رہے ہیں جو لوگ اس روز جنگ میں شریک نہیں ہوئے تھے وہ اب ان کے ساتھ اکٹھے ہوگئے ہیں اور اپنی گذشتہ حرکت پر پشیمان ہیں ان کے اندر تمہاری اوپر اتنا شدید غصہ ہے کہ میں نے کبھی ایسا غصہ نہیں دیکھا ابو سفیان نے کہا ارے تیرا برا ہو کیا کہہ رہا ہے معبد نے کہا خدا کی قسم میرے خیال میں تم کوچ کرنے بھی نہ پاؤ گے کہ گھوڑوں کی پیشانیاں تم کو نظر آجائیں گی۔ ابو سفیان نے کہا خدا کی قسم ہم تو یہ فیصلہ کرچکے تھے کہ لوٹ کر ان پر حملہ کردیں تاکہ ان کے باقی لوگوں کو بھی جڑ سے اکھاڑ پھینکیں۔ معبد نے کہا میں تم کو اس حرکت سے روکتا ہوں معبد کے اس قول نے صفوان کے مشورہ کے ساتھ مل کر ابو سفیان اور اس کے ساتھیوں کا رخ موڑ دیا اور تعاقب کے ڈر سے وہ جلد جلد لوٹ پڑے۔ اسی اثنا میں ابو سفیان کی طرف سے عبد القیس کے کچھ سوار گزرے ابو سفیان نے پوچھا کہاں کا ارادہ ہے ؟ سواروں نے کہا مدینہ کو غلہ لینے جا رہے ہیں ابوسفیان نے کہا کیا تم محمد کو میری طرف سے ایک پیام پہنچا دو گے اگر تم اس کام کو پورا کردو گے تو میں کل عکاذ میں تمہارے اونٹوں پر کشمش لادوں گا سواروں نے کہا ہاں ابو سفیان نے کہا جب تم محمد ﷺ کے پاس پہنچو تو اس کو اطلاع دیدینا کہ ہم نے فیصلہ کرلیا ہے کہ محمد اور اس کے ساتھیوں پر حملہ کریں گے تاکہ جو لوگ باقی رہ گئے ہیں ان کی بیخ کنی کردیں۔ یہ پیام بھیجنے کے بعد ابو سفیان مکہ کو چلا گیا اور سواروں نے جا کر مقام حمراء الاسد میں رسول اللہ کو یہ اطلاع دیدی رسول اللہ نے فرمایا : حسبنا اللہ و نعم الوکیل رسول اللہ نے اس جگہ 17‘ 18 اور 19 یعنی پیر منگل اور بدھ تک قیام کیا اور اللہ نے آیت ذیل نازل کی۔
Top