Kashf-ur-Rahman - Aal-i-Imraan : 194
رَبَّنَا وَ اٰتِنَا مَا وَعَدْتَّنَا عَلٰى رُسُلِكَ وَ لَا تُخْزِنَا یَوْمَ الْقِیٰمَةِ١ؕ اِنَّكَ لَا تُخْلِفُ الْمِیْعَادَ
رَبَّنَا : اے ہمارے رب وَاٰتِنَا : اور ہمیں دے مَا : جو وَعَدْتَّنَا : تونے ہم سے وعدہ کیا عَلٰي : پر (ذریعہ) رُسُلِكَ : اپنے رسول (جمع) وَلَا تُخْزِنَا : اور نہ رسوا کر ہمیں يَوْمَ الْقِيٰمَةِ : قیامت کے دن اِنَّكَ : بیشک تو لَا تُخْلِفُ : نہیں خلاف کرتا الْمِيْعَادَ : وعدہ
اے ہمارے پروردگار جن چیزوں کا آپ نے اپنے رسولوں کی معرفت ہم سے وعدہ کیا ہے وہ ہم کو عطا کر دیجئے اور ہم کو قیامت کے د رسوا نہ کیجئے بلاشبہ آپ وعدہ خلافی نہیں کیا کرتے۔2
2 اے ہمارے پروردگار ہم دوزخ کے عذاب سے اس لئے پناہ مانگتے ہیں کہ بلاشبہ جس کو تو نے دوزخ میں داخل کردیا تو واقعی اس کو رسوا ہی کردیا اور ایسے ظالموں اور ناانصافوں کا کوئی بھی ساتھی اور مددگار نہیں۔ اے ہمارے پروردگار ہم نے ایک پکارنے والے کو سنا کہ وہ ایمان لانے کے واسطے منادی کررہا ہے اور یہ کہہ رہا ہے کہ تم لوگ اپنے رب پر ایمان لے آئو لہٰذا اے ہمارے پروردگار ! ہم ایمان لے آئے۔ اے ہمارے پروردگار اب تو ہمارے بڑے گناہوں کو بھی بخش دے اور ہماری چھوٹی خطائوں کو بھی ہم سے زائل کردے اور ہمارے قصوروں کو بھی معاف کردے اور ہم کو نیک لوگوں میں شامل رکھتے ہوئے موت دے یعنی نیکی پر خاتمہ فرما۔ اے ہمارے پروردگار ! جن چیزوں کا تو نے اپنے رسولوں کی معرفت ہم سے وعدہ کیا ہے وہ چیزیں ہم کو عطا کردے اور ہم کو قیامت کے دن رسوا نہ کر اور یقیناً تو وعدہ خلافی نہیں کیا کرتا اور اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا۔ (تیسیر) اوپر کی آیت میں حضرت ا اولی الالباب کے ذکر و فکر کا ذکر تھا اور مصنوعات عالم سے ایک خالص اور واجب الوجود پر استدلال کا ذکر فرمایا تھا اور آخر میں حضرت کی تنزیہ اور تقدیس کا ذکر فرمانے کے بعد ان کی درخواست مذکور تھی کہ اے ہمارے پروردگار دوزخ کے عذاب سے ہم کو بچا لیجئے۔ اب ان آیات میں ان کی اور دعائیں مذکور ہیں دعائیں نہایت جامع ہیں پہلی دعا میں دوزخ سے پناہ مانگنے کی وجہ بیان کی ہے کہ دوزخ میں جس کو آپ نے داخل کردیا تو اسے رسوا کردیا کیونکہ تمام مخلوق کے روبرو رسوائی ہوئی اور کوئی اس کا مددگار اور حمایتی بھی نہیں ہوسکتا کیونکہ دوزخ میں بھیجنا حضرت حق کے قہر کی علامت ہے اور مقہور کی حمایت کرنا ان کے قہر کو رفع کرنا ہے اور یہ ہو نہیں سکتا ورنہ ان کا عجز لازم آئے گا اور بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس سے کافر مراد ہیں اور من تدخل النار کا مطلب یہ ہے کہ جس کو ہمیشہ کے لئے جہنم میں داخل کردیا۔ اگرچہ یہ احتمال بھی ہے کہ اس سے گناہ گار مومن مراد ہوں۔ تیسری درخواست میں ضمناً نبی کریم ﷺ کی رسالت کا اعتراف ہے اور استدلال عقلی کے بعد نقلی دلیل کے ساتھ بھی اپنے ایمان لانے کا اظہار ہے اور کبائر و صغائر کی معافی کے لئے درخواست ہے اور خاتمہ بخیر ہونے کی دعا ہے۔ مح الابرار سے مراد معیت زمانی نہیں ہے بلکہ مطلب یہ ہے کہ جب ہماری موت آئے تو ہم زمرئہ ابرار میں شامل ہوں اور ہمارا نیک لوگوں میں شمار ہو۔ منادیا ینادی للایمان سے مراد سید المرسلین ﷺ ہیں اور یہ جو فرمایا کہ ہم نے ایک پکارنے والے کو سنا کہ وہ دعوت الی الایمان دے رہا ہے۔ یہ سننا بلاواسطہ ہے ان لوگوں کے لیے جو حضور ﷺ کے زمانے میں موجود تھے اور بالواسط سننا ہے ان لوگوں کے لئے جو بعد میں آنے والے ہیں اور ہوسکتا ہے کہ منادی سے مراد قرآن کریم ہو اور قرآن کریم کا منادی ہونا ہر زمانے میں ہے۔ اس کے بعد آخری دعا میں یہ عرض کیا ہے کہ اے پروردگار جس طرح ہم نے آپ سے عذاب اور گناہوں کے ضرر سے بچنے کی درخواست کی ہے اسی طرح ہم آپ سے دینی اور دنیوی منافع کے بھی طلبگار ہیں اور آپ نے اپنے رسولوں کی زبان سے یہ وعدہ فرمایا ہے کہ ہم اپنے مومن اور نیک بندوں کو دنیا میں نصرت و فتح عطا کریں گے اور آخرت میں ان کو ثواب اور جنت عطا فرمائیں گے اس لئے ہم آپ سے عرض کرتے ہیں کہ جن چیزوں کا آپ نے وعدہ کیا ہے وہ ہم کو عنایت کردیجئے اور چونکہ قیامت کے دن یہ بھی اندیشہ ہے کہ کچھ عتاب یا ملامت یا کچھ دن عذاب کے بعد جنت میں بھیجا جائے اس لئے ہماری درخواست ہے کہ ہم کو ہر قسم کی رسوائی سے محفوظ رکھا جائے اور بغیر کسی رسوائی اور توبیخ و تعذیب کے ہم کو جنت میں بھیج دیا جائے۔ آخر میں انک لا تخلف المیعاد کہہ کر اس وہم کو رفع کردیا گیا کہ آپ کی طرف سے خلف وعدہ کا احتمال نہیں ہے لیکن ہم کو اس کا خطرہ ہے کہ کہیں ہم اپنے اس معیار پر پورے نہ اتریں جس معیار کے لوگوں سے آپ نے وعدہ فرمایا ہے اس لئے ہم کو ان نیک لوگوں جیسا کردیجئے اور ویسا ہی رکھئے جس سے ہم اس وعدے کے مستحق رہیں۔ ان اٰمنوا بربکم کی تفسیر کئی طرح کی گئی ہے ہم نے ایک طریقہ اختیار کرلیا ہے جو ہمارے ترجمے سے ظاہر ہے۔ ذنوب سے مراد کبیرہ اور سیات سے مراد صغیرہ گناہ ہیں اور ہوسکتا ہے کہ پہلے اور پچھلے گناہ مراد ہوں۔ اور ہوسکتا ہے کہ ذنب سے مراد وہ گناہ ہیں جن کو گناہ جان کر کیا ہو اور سیات سے وہ گناہ مراد ہوں جو جہالت سے کئے ہوں۔ بہرحال ہم نے حضرت عبداللہ بن عباس کا قول اختیار کیا ہے۔ تکفیر کے معنی اصل میں توڈھانک لینے کے ہیں لیکن عام طور سے ازالہ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ بڑے گناہ معاف کردیجئے اور چھوٹی موٹی تقصیرات پر پردہ ڈال دیجئے۔ بہرحال دوزخ سے بچ جانا اور جنت میں داخل ہوجانا۔ طاعات کی توفیق کامل ہوجانا اور گناہوں کا معاف ہوجانا یہی وہ چیزیں ہیں جس کی ایک مسلمان کو ضرورت ہے۔ اور یہ سب باتیں ان دعائوں میں موجود ہیں آگے کی آیت میں ان دعائوں کی اجابت اور قبولیت کا اعلان ہے۔ چناچہ ارشاد فرماتے ہیں۔ (تسہیل)
Top