Urwatul-Wusqaa - Aal-i-Imraan : 194
رَبَّنَا وَ اٰتِنَا مَا وَعَدْتَّنَا عَلٰى رُسُلِكَ وَ لَا تُخْزِنَا یَوْمَ الْقِیٰمَةِ١ؕ اِنَّكَ لَا تُخْلِفُ الْمِیْعَادَ
رَبَّنَا : اے ہمارے رب وَاٰتِنَا : اور ہمیں دے مَا : جو وَعَدْتَّنَا : تونے ہم سے وعدہ کیا عَلٰي : پر (ذریعہ) رُسُلِكَ : اپنے رسول (جمع) وَلَا تُخْزِنَا : اور نہ رسوا کر ہمیں يَوْمَ الْقِيٰمَةِ : قیامت کے دن اِنَّكَ : بیشک تو لَا تُخْلِفُ : نہیں خلاف کرتا الْمِيْعَادَ : وعدہ
اے ہمارے رب ! ہمیں وہ سب کچھ عطا فرما جس کا تو نے اپنے رسولوں کی زبانی وعدہ فرمایا ہے قیامت کے دن ہمیں ذلت نہ ہو ، بلاشبہ تیرا وعدہ کبھی خلاف نہیں ہوتا
اے ہمارے رب ! ہمیں وہ سب کچھ عطا فرما دے جس کا تو نے وعدہ فرمایا ہے : 354: اپنے رب سے مانگنے میں کسی بندے کو نہ شرم آنی چاہیے نہ جھجک کیونکہ ہم سے مانگت ہیں اور وہی ہم سب کا داتا ہے۔ انبیاء کرام جو دوسرے سارے انسانوں سے افضل و اعلیٰ تھے وہ بھی اللہ سے مانگتے رہے قرآن کریم نے تقریبا ہر نبی کی پکار کا ذکر کیا ہے آدم (علیہ السلام) سے لے کر نبی اعظم و آخر ﷺ تک سارے انبیائے کرام کو اللہ نے کود دعائیں سکھائیں اور خود ہی ان کو قبول فرما کر ساری امتوں کو یہ سبق دیا کہ جو کچھ مانگنا ہے صرف مجھ ہی سے مانگو اور یہی تعلیم محمد رسول اللہ ﷺ کی امت کو دی۔ چناچہ فرمایا : وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَ لْیُؤْمِنُوْا بِیْ لَعَلَّھُمْ یَرْشُدُوْنَ (البقرہ : 186:2) ” اے پیغمبر اسلام ! میرے بندے اگر تم سے میرے متعلق پوچھیں تو انہیں بتادو کہ میں ان سے قریب ہی ہوں پکارنے والا جب مجھے پکارتا ہے میں اس کی پکار سنتا ہوں اور جواب دیتا ہوں لہٰذا انہیں چاہیے کہ میری دعوت پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں یہ بات تم انہیں سنا دو شاید کہ راہ راست پالیں۔ “ اگرچہ تم مجھے دیکھ نہیں سکتے اور نہ ہی اپنے حواس سے مجھ کو محسوس کرسکتے ہو لیکن یہ خیال نہ کرو کہ میں تم سے دور ہوں نہیں ، میں اپنے ہر بندے سے اتنا قریب ہوں کہ جب وہ چاہے مجھ سے عرض معروض کرسکتا ہے حتیٰ کہ دل ہی دل میں وہ جو کچھ مجھ سے گزارش کرتا ہے میں اسے بی سن لیتا ہوں اور صرف سنتا ہی نیں فیصلہ بھی صادر کرتا ہوں۔ جن بےحقیقت اور بےاختیار ہستیوں کو تم نے اپنی نادانی سے الٰہ اور رب نہ ان میں یہ طاقت ہے کہ تمہاری درخواستوں پر کوئی فیصلہ صادر کرسکیں مگر میں کائنات بےپایاں کا فرماں اور سفارش کے براہ راست ہر وقت اور ہر جگہ مجھ تک اپنی عرضیاں پہنچا سکتے ہو۔ لہٰذاتم اپنی اس نادانی کو چھوڑ لبیک کہہ کر میرا دامن پکڑ لو۔ میری طرف رجوع کرو ، مجھ پر بھروسہ کرو اور میری بندگی و ا طاعت میں آجاؤ ۔ شکر گزاروں کو مزید ملتا ہے اور کفران نعمت کرنے والوں کے لئے عذاب الٰیع تیار ہے : 355: ” اور اپنے کرم خاص سے ایسا کر کہ قیامت کے دن ہمیں ذلت و خواری نصیب نہ ہو۔ “ قرآن کریم نے دوسری جگہ اس کی وضاحت خود فرما دی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا قانون اس سلسلہ میں یہ ہے کہ شکر گزاروں کو زیادہ ملتا ہے اور کفران نعمت کرنے والوں کے لئے عذاب الٰہی تیا کھڑا ہے۔ چناچہ ارشاد لٰہی ہے کہ : وَ اِذْ تَاَذَّنَ رَبُّکُمْ لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّکُمْ وَ لَئِنْ کَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْد (ابراہیم : 7:14) ” اور یاد رکھو تمہارے رب نے خبردار کیا ہے کہ اگر تم شکر گزار ہو گے تو میں تم کو اور زیادہ نوازوں گا اور اگر کفران نعمت کرو گے تو میری سزا بہت سخت ہے۔ “ اس آیت میں اس واقعہ کی طرف توجہ دلائی گئی ہے جب موسیٰ (علیہ السلام) اپنی وفات سے چند روز پہلے بنی اسرائیل کو ان کی تاریخ کے سارے اہم واقعات یاد دلاتے ہیں اور پھر تورات کے ان تمام احکام کو دہراتے ہیں جو اللہ نے ان کے ذریعہ سے بنی اسرائیل کو بھیجے تھے پھر ایک طویل وعظ فرماتے ہیں جس میں بتاتے ہیں کہ اگر انہوں نے اپنے رب کی فرمانبرداری کی تو کیسے انعامات سے نوازے جائیں گے اور اگر نافرمانی کی روش اختیار کی تو اس کی کتنی سخت سزا دی جائے گی ؟ اس جگہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ذلت و خواری سے بچنے کی جو دعائیں کر رہے ہوں ان کی قبولیت کے لیے یہ شرط ہے کہ اگر تم نے محمد رسول اللہ ﷺ کی نعمت کا شکر ادا کیا کہ ان کی سچے دل سے فرمانبرداری کی تو یقینا تمہاری دنیا بھی سنورے گی اور آخرت بھی بہتر ہوگی لیکن اگر تم نے ناشکری کی یعنی رسول اللہ ﷺ کی نافرمانی کے مرتب ہوئے تو پھر تمہاری دعا قبول نہیں ہوگی اور مزید یہ کہ تم عذاب الٰہی کے مستحق قرار دیے جاؤ گے اس لیے کہ یہی کچھ موسیٰ (علیہ السلام) کی امت کے ساتھ ہوا تھا۔ اے اللہ ! تیری ہی وہ ذات ہے کہ جس کا کیا ہوا وعدہ کبھی خلاف نہیں ہوتا : 356: ” اے اللہ ! تو ہی ہے کہ تیرا وعدہ کبھی خلاف نہیں ہوتا۔ “ اس طرح یہ ان اللہ کے بندوں کی اپنے رب کریم کی بارگاہ میں چوتھی درخواست ہے جو دنیا و آخرت کے فوائد حاصل کرنے کے متعلق ہے کہ انبیاء کرام کے ذریعہ جو وعدہ آپ نے جنت اور جنت کی نعمتوں کا فرمایا وہ ہمیں اس طرح عطا فرمائے کہ قیامت کے روز رسوائی بھی نہ ہو یعنی اول مواخذہ اور بدنامی بعد میں معافی کی بجائے اول ہی سے معافی فرما دیجئے آپ تو کبھی وعدہ خلافی نہیں کرتے اور اس طرح عرض و معروض کا مقصد حقیقی یہ ہے کہ ہمیں اس قابل بنا دیجئے کہ ہم یہ وعدہ حاصل کرنے کے مستحق ہوجائیں اور پھر اس پر قائم بھی رہیں پہلوں کی طرح وعدہ کر کے خلاف نہ کریں یعنی ہمارا خاتمہ ایمان اور عمل صالح پر ہو۔ اگر کسی کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہو کہ جب ایک امر کا وعدہ ہو تو پھر اس کے لیے دعا کی کیا حاجت رہ گئی اور وعدہ بھی جب کہ اللہ کی طرف سے ہو کین کہ اللہ سے تو خلافِ وعدہ محال ہے ؟ سن لینا چاہیے کہ وعدہ عمل کے ساتھ وابستہ ہے جب عمل ہوگا یقینا ویسا ہی اس کے ساتھ اس کا نتیجہ قانون الٰہی میں طے ہے اور اسی نتیجہ کا نام وعدہ ہے۔ جب عمل اچھا ہے تو یقینا اس کا وعدہ الٰہی یعنی نتیجہ عمل بھی اچھا ہی ہوگا اور برائی یا خطا ہوجانے کے بعد اس کا اعتراف اور معافی کی طلب جو بذاتہ ایک عمل ہے اور پھر ایسا عمل ہے جو پہلے عمل کے نتیجہ کو مٹا کر نیا نتیجہ پیدا کردیتا ہے جو اس معافی طلب کرنے کے عمل کے ساتھ وابستہ ہے۔
Top