Tafseer-e-Madani - Aal-i-Imraan : 194
رَبَّنَا وَ اٰتِنَا مَا وَعَدْتَّنَا عَلٰى رُسُلِكَ وَ لَا تُخْزِنَا یَوْمَ الْقِیٰمَةِ١ؕ اِنَّكَ لَا تُخْلِفُ الْمِیْعَادَ
رَبَّنَا : اے ہمارے رب وَاٰتِنَا : اور ہمیں دے مَا : جو وَعَدْتَّنَا : تونے ہم سے وعدہ کیا عَلٰي : پر (ذریعہ) رُسُلِكَ : اپنے رسول (جمع) وَلَا تُخْزِنَا : اور نہ رسوا کر ہمیں يَوْمَ الْقِيٰمَةِ : قیامت کے دن اِنَّكَ : بیشک تو لَا تُخْلِفُ : نہیں خلاف کرتا الْمِيْعَادَ : وعدہ
اور عطا فرما دے ہمیں اے ہمارے رب، وہ کچھ کہ جس کا تو نے ہم سے وعدہ فرما رکھا ہے اپنے رسولوں کے ذریعے، اور ہمیں رسوا نہیں کرنا قیامت کے روز، بیشک تو (اے اصدق القائلین ! ) خلاف نہیں کرتا اپنے وعدے کے
415 راہ حق پر استقامت کی دعا : سو ارشاد فرمایا گیا کہ وہ اپنے رب کے حضور مزید عرض کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب ہمیں وہ کچھ عطا فرما دے جس کا وعدہ تو نے اپنے رسولوں کے ذریعے ہم سے فرما رکھا ہے۔ یعنی دنیا کی عزت اور نصرت و غلبہ اور آخرت کی اس حقیقی اور ابدی زندگی میں دائمی فوز و فلاح، نعیم جنان اور اپنی رضا کے شرف کے وعدے جو تو نے اے ہمارے خالق ومالک اپنے رسولوں کے ذریعے ہم سے فرما رکھے ہیں۔ سو تیرے وعدے تو بہرحال سچے ہیں مگر خطرہ ہماری اپنی طرف سے ہے کہ ہم کہیں راہ حق و ہدایت سے بھٹک اور پھسل کر ان سے محروم نہ ہوجائیں۔ پس تو اے ہمارے مالک ہمیں راہ حق و ہدایت پر پکا رکھ تاکہ ہم تیرے ان وعدوں سے سرفراز ہوسکیں ۔ سو یہ دعا دراصل راہ حق پر پختگی اور استقامت کی دعا ہے جو ان اولوا الالباب کی طرف سے ان کے خالق ومالک کے حضور کی جاتی ہے۔ سو راہ حق و ہدایت پر صبر و استقامت اور اللہ والوں کی محبت ورفاقت دارین کی سعادت و سرخروئی سے بہرہ مند و سرفراز کرنے والی چیز ہے ۔ اللہ نصیب فرمائے اور ہمیشہ راہ حق پر ثابت قدم رکھے ۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین۔ اللہ زیغ و زلل کے ہر شائبہ سے ہمیشہ محفوظ رکھے ۔ آمین ثم آمین۔ 416 قیامت کی رسوائی سے بچانے کی دعا : سو ارشاد فرمایا گیا کہ وہ مزید عرض کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب ہمیں قیامت کے دن رسوا نہیں کرنا کہ اس دن کی رسوائی بہت بڑی اور نہایت ہولناک و مہیب رسوائی ہوگی۔ اور تیری رحمت و عنایت کے سوا اور کوئی صورت اس سے بچنے کی ممکن نہیں۔ اور تیرا وعدہ ہے کہ تو اس روز کی اس رسوائی سے اپنے پیغمبر کو اور اس پر ایمان لانے والوں کو محفوظ رکھے گا۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا { یَوْمَ لَا یُخْزِی اللّٰہُ النَّبِیَّ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَہ } (التحریم : 8) ۔ پس ہمیں ایمان و یقین اور پیغمبر کی معیت سے ہمیشہ سرفراز و سرشار رکھنا تاکہ ہم اس دن کی اس ہولناک رسوائی سے بچ سکیں۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین و یا ارحم الراحمین۔ بہرکیف قیامت کی رسوائی بڑی ہی ہولناک ہوگی ۔ اللہ تعالیٰ محض اپنے فضل و کرم سے اس سے محفوظ رکھے ۔ آمین۔ 417 اللہ کا وعدہ قطعی اور پکار : سو ارشاد فرمایا گیا کہ وہ بندگان صدق وصفا اپنی دعا میں اپنے رب کے حضور مزید عرض کرتے ہیں بیشک تو [ اے اصدق القائلین ] خلاف ورزی نہیں کرتا اپنے وعدے کی۔ پس تیرے وعدوں کی خلاف ورزی کا تو کوئی خدشہ و امکان بہرحال نہیں لیکن اس بات کا ڈر اور خطرہ ضرور ہے کہ ہم کہیں نفس اَمّارہ اور شیطان مردود کے اغواء اور دھوکہ میں آ کر راہ حق سے بھٹک نہ جائیں۔ پس تو اے ہمارے مالک ! اپنے کرم اور اپنے لطف و عنایت سے ہماری حفاظت فرما اور ہمیں ہمیشہ اپنی مرضیات پر چلنا نصیب فرما۔ اور ہمیں ہر زیغ و زلل سے محفوظ رکھنا۔ آمین۔ یہاں پر یہ نکتہ بھی ملحوظ رہے کہ اولوا الالباب کی طرف سے حق کی یہ تائید دعوے کی شکل میں نہیں بلکہ دعاء کی شکل میں سامنے آئی۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ اپنے اس { اٰمَنَّا } کی ذمہ داریوں اور اس کی مشکلات سے اچھی طرح واقف ہیں۔ اس لئے انہوں نے اس پر فخر کا اظہار کرنے کی بجائے نہایت عاجزی اور فرونتی کے ساتھ اپنے آپ کو اپنے رب کے آگے ڈال دیا کہ مالک ! جس طرح تو نے اپنے کرم سے ہمیں اس ایمان کی توفیق بخشی، اسی طرح ہمیں اس راہ کی مشکلات اور ذمہ داریوں سے بھی عہدہ برآ ہونے کی توفیق عطا فرما ۔ فانک انت المستعان وعلیک التکلان ۔ سو ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کی امید اور اس کے عذاب سے ڈرتے رہنے کی ضرورت ہے ۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید وعلی ما یحب ویرید وہو الہادی الی سواء السبیل -
Top